حضرت جبرائیل کو کتنی بار نبی کریم نے اصلی حالت میں دیکھنا

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی بار حضرت جبرائیل علیہ السلام کو اپنی اصلی صورت میں دیکھا ہے، جس صورت میں اللہ تعالیٰ نے ان کو پیدا فرمایا۔

3984 مناظر 1

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! جامع ترمذی میں ایک لمبی حدیث ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق صراحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو ان کی اصلی حالت میں دو بار دیکھا ہے۔ جیسا کہ حدیث ملاحظہ فرمائیں

    حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ كُنْتُ مُتَّكِئًا عِنْدَ عَائِشَةَ فَقَالَتْ يَا أَبَا عَائِشَةَ ثَلَاثٌ مَنْ تَكَلَّمَ بِوَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ فَقَدْ أَعْظَمَ عَلَى اللَّهِ الْفِرْيَةَ مَنْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ أَعْظَمَ الْفِرْيَةَ عَلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَقُولُ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ وَكُنْتُ مُتَّكِئًا فَجَلَسْتُ فَقُلْتُ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَنْظِرِينِي وَلَا تُعْجِلِينِي أَلَيْسَ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ قَالَتْ أَنَا وَاللَّهِ أَوَّلُ مَنْ سَأَلَ عَنْ هَذَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا ذَاكَ جِبْرِيلُ مَا رَأَيْتُهُ فِي الصُّورَةِ الَّتِي خُلِقَ فِيهَا غَيْرَ هَاتَيْنِ الْمَرَّتَيْنِ رَأَيْتُهُ مُنْهَبِطًا مِنْ السَّمَاءِ سَادًّا عِظَمُ خَلْقِهِ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا كَتَمَ شَيْئًا مِمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْهِ فَقَدْ أَعْظَمَ الْفِرْيَةَ عَلَى اللَّهِ يَقُولُ اللَّهُ يَا أَيُّهَا الرَّسُولَ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَمَنْ زَعَمَ أَنَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ فَقَدْ أَعْظَمَ الْفِرْيَةَ عَلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَقُولُ قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ ۔(ترمذی:3068)
    مسروق کہتے ہیں کہ میں ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کے پاس ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا تھا، انہوں نے کہا: اے ابو عائشہ! تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان میں سے کسی نے ایک بھی کیا تو وہ اللہ پر بڑی بہتان لگائے گا:

    1۔ جس نے خیال کیا کہ محمد صلی الله علیہ وسلم نے (معراج کی رات میں) اللہ کو دیکھا ہے تو اس نے اللہ کی ذات کے بارے میں بڑی بہتان لگائے گا۔ کیوں کہ اللہ اپنی ذات کے بارے میں کہتا ہے کہ اسے انسانی نگاہیں نہیں پا سکتی ہیں، اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے (یعنی اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا اور وہ سبھی کو دیکھ لیتا ہے) اور اس کی ذات لطیف وخبیر ہے، کسی انسان کو بھی یہ مقام ودرجہ حاصل نہیں ہے کہ اللہ اس سے بغیر وحی کے یا بغیر پردے کے براہ راست اس سے بات چیت کرے، (وہ کہتے ہیں:) میں ٹیک لگائے ہوئے تھا اور اٹھ بیٹھا، میں نے کہا: ام المؤمنین! مجھے بولنے کا موقع دیجئے اور میرے بارے میں حکم لگانے میں جلدی نہ کیجئے گا، کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: ’’ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى ۔ وَلَقَدْ رَآهُ بِالأُفُقِ الْمُبِينِ‘‘ تب عائشہ رضی الله عنہا نے کہا: قسم اللہ کی! میں وہ پہلی ذات ہوں جس نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا: ’’ وہ تو جبرئیل تھے (ان آیتوں میں میرے دیکھنے سے مراد جبرئیل کو دیکھنا تھا (ا للہ کو نہیں) ان دو مواقع کے سوا اور کوئی موقع ایسا نہیں ہے جس میں جبرئیل کو میں نے ان کی اپنی اصل صورت میں دیکھا ہو۔ جس پر ان کی تخلیق ہوئی ہے، میں نے ان کو آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا ہے، ان کی بناوٹ کی بڑائی یعنی بھاری بھرکم جسامت نے آسمان وزمین کے درمیان جگہ کو گھیر رکھا تھا

    2۔ اور دوسرا وہ شخص کہ جو اللہ پر جھوٹا الزام لگانے کا بڑا مجرم ہے جس نے یہ خیال کیا کہ اللہ نے محمد صلی الله علیہ وسلم پر جو چیزیں اتاری ہیں ان میں سے کچھ چیزیں محمد صلی الله علیہ وسلم نے چھپا لی ہیں۔ جب کہ اللہ کہتا ہے ’’يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ‘‘۔

    3۔ وہ شخص بھی اللہ پر جھوٹا الزام لگانے والا ہے جو یہ سمجھے کہ کل کیا ہونے والا ہے، محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اسے جانتے ہیں، جب کہ اللہ خود کہتا ہے کہ آسمان وزمین میں غیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے۔

    اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں صراحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دوبار دیکھا

    1۔ پہلی بار تب دیکھا جب سورۃ المدثر کی پہلی آیات نازل ہوئیں۔ جس کی دلیل یہ ہے کہ

    عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ فَقَالَ فِي حَدِيثِهِ بَيْنَمَا أَنَا أَمْشِي سَمِعْتُ صَوْتًا مِنْ السَّمَاءِ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا الْمَلَكُ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَاءَ جَالِسٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ فَجُثِثْتُ مِنْهُ رُعْبًا فَرَجَعْتُ فَقُلْتُ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَدَثَّرُونِي فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَا
    أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ إِلَى قَوْلِهِ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ قَبْلَ أَنْ تُفْرَضَ الصَّلَاةُ۔ (ترمذی:3325)
    جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ وحی موقوف ہوجانے کے واقعہ کا ذکر کررہے تھے، آپ نے دوران گفتگو بتایا: میں چلاجارہاتھا کہ یکایک میں نے آسمان سے آتی ہوئی ایک آواز سنی، میں نے سراٹھایا تو کیا دیکھتاہوں کہ وہ فرشتہ جو (غار) حراء میں میرے پاس آیا تھا آسمان وزمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے ، رعب کی وجہ سے مجھ پر دہشت طاری ہوگئی، میں لوٹ پڑا (گھر آکر) کہا: مجھے کمبل میں لپیٹ دو، تو لوگوں نے مجھے کمبل اڑھادیا، اسی موقع پر آیت ’’ يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ‘‘ سے ’’وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ‘‘ تک نازل ہوئی، یہ واقعہ صلاۃ فرض ہونے سے پہلے کا ہے۔

    2۔ دوسری مرتبہ تب دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کومعراج ہوا۔ جس کی دلیل یہ ہے کہ

    وَحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ، عَنِ ابْنِ أَشْوَعَ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ: فَأَيْنَ قَوْلُهُ؟ {ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى} [النجم: 9] قَالَتْ: ” إِنَّمَا ذَاكَ جِبْرِيلُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْتِيهِ فِي صُورَةِ الرِّجَالِ، وَإِنَّهُ أَتَاهُ فِي هَذِهِ الْمَرَّةِ فِي صُورَتِهِ الَّتِي هِيَ صُورَتُهُ فَسَدَّ أُفُقَ السَّمَاءِ۔ (مسلم:442)
    (سعید بن عمرو) ابن اشوع نے عامر(شعبی) سے، انہوں نے مسروق سے روایت کی ، انہوں نے کہا: میں نےحضرت عائشہ ؓ سے عرض کی : اللہ تعالیٰ کے اس قول کا کیا مطلب ہو گا:’’ پھر وہ قریب ہوا اور اتر آیا اور د وکمانوں کے برابر یا اس سے کم فاصلے پر تھا ، پھر اس نے اس کے بندے کی طرف وحی کی جو وحی کی ؟ ‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: وہ تو جبریل تھے ، وہ ہمیشہ آپ کے پاس انسانوں کی شکل میں آتے تھے اور اس دفعہ وہ آپ کے پاس اپنی اصل شکل میں آئے اور انہوں نے آسمان کے افق کو بھر دیا۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں