زکوۃ کا جمع شدہ مال ادھار دینا

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ اپنی کسی قریبی کےلیے زکوۃ کا مال جمع کیا جاتا رہے، اور پھر یہی زکوۃ کی رقم اپنی کسی بہن کو قرضہ میں دے دی جائے، رمضان آجانے پر کیا اس قرض دی گئی رقم پر بھی زکوۃ ہوگی؟ اور اسی طرح جس بہن نے قرضہ لیا ہے کیا وہ بھی اس رقم پر زکوۃ ادا کرے؟

337 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    پہلی بات بہن جب سارے کا سارا مال ہی زکوۃ کا ہے، اور زکوۃ کے مال کو ہی جمع کیا جا رہا ہے۔ اور یہ سارے کا سارا مال مستحقین کا حق ہے۔ تو پھر اس زکوۃ والے مال پر مزید زکوۃ نہیں دی جاسکتی۔ کیونکہ جمع کرنے والا تو صرف عاملین زکوۃ کا کام کررہا ہے۔ یعنی ان لوگوں سے جن پر زکوۃ واجب ہوچکی ہے، لے لے کر جمع کرکے غربا میں تقسیم کرنا چاہتا ہے۔

    دوسری بات اگر یہی زکوۃ والا مال کسی کو ادھاردیا جائے تو اس بارے کیا شرعی امر ہے؟ تو عاملین (زکوۃ جمع کرنے والے) کو یہ اختیار نہیں، کہ وہ زکوۃ کے جمع شدہ مال کو خود خرچ کریں، یا پھر کسی کو ادھار دیں۔ کیونکہ یہ مال ان کا ہے ہی نہیں۔ بلکہ کسی اور کی امانت ہے۔ اور کسی اور کی امانت میں خیانت کرنا جرم ہے۔

    تیسری بات جس بہن نے قرضہ لیا ہے، یعنی جو مقروض ہے۔ اور اس کے پاس جو مال ہے وہ نصابِ زکوۃ کو بھی پہنچتا ہے۔ اور اس پر سال بھی گزر گیا ہے تو اس بہن پر اپنے مال سے زکوۃ نكالنا واجب ہے، چاہے وہ مقروض ہى كيوں نہ ہو۔ اس كى دليل زكوٰۃ كے وجوب كے عمومى دلائل ہيں، كہ جس شخص كے پاس مال ہو اور وہ نصاب كو پہنچے اور سال گزر جائے تو اس پر زكوٰۃ ہوگى چاہے اس كے ذمہ قرض ہى كيوں نہ ہو۔ اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے زكوٰۃ جمع كرنے والے عمال كو زكوٰۃ وصول كرنے كا حكم ديا كرتے اور كسى ايک كو بھى يہ حكم نہيں ديا كہ وہ ان سے سوال كريں كہ آيا ان پر قرض ہے يا نہيں ؟ اور اگر قرض زكوٰۃ كے ليے مانع ہوتا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے عمال كو اہل زكوٰۃ سے استفسار اورسوال كرنے كا حكم ديتے كہ آيا وہ مقروض ہيں يا نہیں؟۔

    واللہ اعلم بالصواب

    بہن کے سوال میں کچھ پوائنٹس ہیں
    1۔ زکوۃ کا مال جمع کرنا
    2۔زکوۃ کا مال قرضہ کے طور پر دینا
    3۔اسی مال کا قرضہ دینے اور قرضہ لینے والے پرزکوۃ کی ادائیگی کا ہونا یا نہ ہونا
    زکوۃ کب واجب ہوتی ہے؟ اور اس کا نصاب کیا ہے؟۔ اس کی تفصیل کتب میں دیکھی جاسکتی ہے۔یہاں پر بہن کا جو سوال ہے۔ اس پر جواب یہ ہے کہ

    پہلی بات بہن نے جوبات کی ہے اس میں اس کی وضاحت نہیں کہ وہ خود اپنے مال سے زکوۃ کا مال جمع کررہی تھی یا پھر دیگر لوگوں سے جن پر زکوۃ واجب ہوچکی تھی، ان سے زکوۃ لے لے کر مستحق کےلیے جمع کررہی تھی۔دونوں صورتیں قابل تعریف ہیں۔کیونکہ جذبہ خیرخواہی انسانیت بہت بڑی بات ہے، اور کوشش ہونی چاہیے کہ زکوۃ وصدقات وخیرات یہ غرباء کا حق ہوتا ہے۔ اور ان تک لازمی پہنچنا چاہیے۔اور اس میں ہرمسلمان کو کوشش بھی کرنی چاہیے۔

    دوسری بات اگر وہ اپنے مال سے زکوۃ جمع کر رہی تھی، او رمستحق زکوۃ کو مال دینے سے پہلے ہی کچھ وجوہات کی بناء پر بہن کو اسی مال سے قرضہ دے دیا، تو کیا پھر بھی اسے زکوۃ دینا ہوگی؟

    جیسے کہ کسی شخص سے قرض لینا ہو، اس پر قرض وصول کرنے سے قبل زکوٰۃ واجب نہیں ہے کیونکہ وہ اس کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ قرض اگر کسی خوش حال شخص کے ذمہ ہو، تو اسے ہر سال اس کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔ اگر وہ اپنے مال کے ساتھ اس کی بھی زکوٰۃ ادا کر دے تو وہ بری الذمہ ہو جائے گا اور اگر وہ اپنے مال کے ساتھ اس کی زکوٰۃ ادا نہ کرے تو اس کے لیے واجب ہے کہ جب وہ اسے اپنے قبضے میں لے، تو سابقہ تمام سالوں کی زکوٰۃ ادا کرے کیونکہ خوش حال انسان سے قرض کی واپسی کا مطالبہ ممکن ہے اور اگر اس سے مطالبہ نہیں کیا جاتا تو یہ صاحب قرض کی اپنی مرضی سے ہے اور اگر قرض تنگ دست انسان پر ہو یا ایسے دولت مند پر، جس سے واپسی کا مطالبہ ممکن ہی نہیں تو اس صورت میں ہر سال کی زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی کیونکہ اس کے لیے قرض دی ہوئی رقم کا حصول ممکن نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    ﴿وَإِن كَانَ ذُو عُسۡرَةٖ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيۡسَرَةٖۚ﴾–البقرة:280

    ’’اور اگر قرض لینے والا تنگ دست ہو تو (اسے) کشائش (کے حامل ہونے) تک مہلت دو۔‘‘
    بلاشبہ اس کے لیے اس مال کو اپنے قبضے میں لینا اور اس سے نفع اٹھانا ممکن نہیں، لہٰذا اس مال پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی لیکن جب وہ اسے اپنے قبضے میں لے لے تو بعض اہل علم نے کہا ہے کہ وہ از سر نو ایک سال انتظار کرے اور بعض نے کہا ہے کہ وہ ایک سال کی زکوٰۃ ادا کر دے اور جب اگلا سال شروع ہو جائے تو احتیاطاً اس کی زکوٰۃ بھی ادا کر دے۔
    دوسری بات

    مقروض پر زکوۃ

    زکوۃ کی شرائط
    وجوب زکوٰۃ کی درج ذیل شرطیں ہیں:اسلام، آزادی، نصاب کی ملکیت اور اس کا مستقل ہونا اور سال کا گزرنا۔ ( آخری شرط زمین سے پیدا ہونے والی چیزوں کے لیے نہیں ہے)۔
    نصاب
    چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولے اور گرام کے لحاظ سے 594 گرام ، سونے کا نصاب ساڑھے سات تولہ اور گرا م کے لحاظ سے 85 گرام ۔ اس نصاب پر چالیسواں حصہ یا اڑھائی فیصد زکوٰۃ دینا ہوتی ہے اسی طرح کاغذی نوٹ بھی سونے چاندی کے حکم میں ہیں جس شخص کے پاس سونے چاندی کے نصاب کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ کرنسی نوٹ ہوں ان پر سال گزرچکا ہو،تو اس پر زکوٰۃ دینا ہوتی ہے۔
    اس کے علاوہ کھیتی باڑی، باغات اور جانوروں وغیرہ میں بھی زکوۃ کا ایک نصاب شریعت نے بتایا ہے۔ جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔

    سب سے پہلے تو ہمیں یہ جان لینا چاہیے، کہ ایک مسلمان پر زکوۃ کب فرض ہوتی ہے۔

    http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/1874/174/
    http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/1876/174/

    زکوۃ کب فرض ہوتی ہے؟
    زکوۃ کی رقم کسی کو ادھار دینا؟

    80 – قد عفوت عن صدقة الخيل والرقيق ، فهاتوا صدقة الرقة من كل أربعين درهما درهم . وليس في تسعين ومائة شيء ، فإذا بلغت مائتين ففيها خمسة دراهم
    الراوي: علي بن أبي طالب المحدث: الألباني – المصدر: صحيح الترمذي – الصفحة أو الرقم: 620
    خلاصة حكم المحدث: صحيح
    حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے گھوڑوں اور غلاموں کی زکوۃ تم سے معاف کر دی ہے پس تم چاندی کی زکوۃ ہر چالیس درہم میں سے ایک درہم نکالو اور 199 درہم میں زکوۃ نہیں ہے بلکہ 200 درہم پر 5 درہم زکوۃ نکالو۔

    3 – أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يأخذ من كل عشرين دينارا فصاعدا نصف دينار ومن الأربعين دينارا دينارا
    الراوي: عبدالله بن عمر و عائشة المحدث: الألباني – المصدر: إرواء الغليل – الصفحة أو الرقم: 3/289
    خلاصة حكم المحدث: للحديث شواهد يتقوى بها
    4 – كان يأخذ من كل عشرين دينارا فصاعدا نصف دينار ومن الأربعين دينارا دينارا
    الراوي: عبدالله بن عمر و عائشة المحدث: الألباني – المصدر: صحيح ابن ماجه – الصفحة أو الرقم: 1460
    خلاصة حكم المحدث: صحيح
    حضرت عبد اللہ بن عمر اور عائشہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر بیس دینار میں نصف دینا اور چالیس دینار میں ایک دینار زکوۃ لیتے تھے۔

    200 درہم اور 20 دینار کا وزن

    بیس دینار سونا، جس کا وزن ہمارے معاصر اوزان کے مطابق ساڑھے سات تولے بنتا ہے۔جس کی مقدار تقریباً ساڑھے 87 گرام ہے۔ احتیاطاً اسے 87 گرام شمار کیا جاتا ہے۔
    اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دو قسم کے سکے جاری تھے ۔ ایک دینار جو سونے کا سکہ تھا اور اہل روم کی طرف منسوب تھا اور دوسرا درہم جو چاندی کا سکہ تھا اور اہل فارس کے ہاں رائج تھا۔

    آپ کے زمانہ میں سونے کا نصاب بیس دینار یا بیس مثقال تھا یعنی اگر سونا بیس دینار یا اس سے زائد ہوتا تھا تو اس پر زکوة واجب تھی۔ بیس دینار سونے کا وزن ہمارے معاصر اوزان کے مطابق ساڑھے سات تولے سونا ہے جس کی مقدار تقریبا ساڑھے 87 گرام بنتی ہے ۔ احتیاطاً اسے 87گرام شمار کیا گیا ہے۔

    آپ کے زمانہ میں چاندی کا نصاب 200 درہم تھا جو ہمارے معاصر اوزان کے مطابق ساڑھے باون تولے یا تقریبا ساڑھے 612 گرام بنتاہے۔ اور اس وزن کو احتیاطاً 612 گرام شمار کیا گیا ہے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں