صلاۃ الحاجۃ کی طرح حاجت کے عمرہ کی ادائیگی

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ جیسے صلاۃ الحاجۃ پڑھی جاتی ہے، کیا ہم عمرہ بھی کسی حاجت کےلیے کرسکتے ہیں؟

489 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! آپ یہ جان لیجیے کہ صلاۃ الحاجۃ کے نام سے کوئی نماز ثابت نہیں۔ جو سنن ابن ماجہ میں حدیث آتی ہے کہ

    عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى الْأَسْلَمِيِّ قَالَ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَنْ كَانَتْ لَهُ حَاجَةٌ إِلَى اللَّهِ أَوْ إِلَى أَحَدٍ مِنْ خَلْقِهِ فَلْيَتَوَضَّأْ وَلْيُصَلِّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ لِيَقُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ وَالْغَنِيمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ وَالسَّلَامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ أَسْأَلُكَ أَلَّا تَدَعَ لِي ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَهُ وَلَا هَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَهُ وَلَا حَاجَةً هِيَ لَكَ رِضًا إِلَّا قَضَيْتَهَا لِي ثُمَّ يَسْأَلُ اللَّهَ مِنْ أَمْرِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ مَا شَاءَ فَإِنَّهُ يُقَدَّرُ۔ (ابن ماجہ:1384)
    عبداللہ بن ابی اوفی اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہوسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ’’جس کو اللہ سے یا مخلوق میں سے کسی سے کوئی حاجت در پیش ہو، اسے چاہیے کہ وضو کر کے دو رکعتیں پڑھے پھر کہے: ’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو حلم والا اور کرم والا ہے۔ پاک ہے اللہ جو عرش عظیم کا مالک ہے، تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو جہانوں کو پالنے والا ہے۔ اے اللہ! میں تجھ سے وہ چیزیں (اعمال و خصال) مانگتا ہوں جو تیری رحمت کا سبب ہیں اور تیری بخشش کا باعث بننے والے( اعمال) اور ہر نیکی میں حصہ اور ہر گناہ سے سلامتی کا سوال کرتا ہوں۔ میں تجھ سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ میرا کوئی گناہ معاف کیے بغیر، کوئی غم ختم کیے بغیر اور کوئی حاجت جو تیری رضا کے مطابق ہو، پوری کیے بغیر نہ چھوڑ۔ پھر اللہ تعالیٰ سے دنیا اور آخرت کی جو حاجت چاہے مانگ لے۔ اس کی قسمت میں وہ چیز ہو جائے گی۔

    اس حدیث کی سند میں میں فائد بن عبد الرحمن الكوفي ہے جو عبد الله بن أبي أوفى سے روایت کرتا ہے۔ احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ متروک الحدیث ہے، یحیی بن معین رحمہ اللہ کہتے ہیں: ثقہ نہیں ہے، ابن حبان رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس سے حجت پکڑنا جائز نہیں۔ (الموضاعت ابن جوزی 2/461) امام البانی رحمہ اللہ نے سخت ضعیف کہا ہے (تخریج المشکوۃ 1278، ضعیف ابن ماجہ 260)

    اسی طرح سعودی عرب کی فتویٰ کمیٹی کا بیان ہے: جسے لوگ صلاۃ الحاجۃ کہتے ہیں اس سے متعلق احادیث ضعیف اور منکر ہیں جو دلیل نہیں بن سکتی اور ناقابل حجت ہیں۔ اس پر عمل کرنا صحیح نہیں۔ (فتوی لجنۃ دائمہ 8/160)

    جب صلاۃ الحاجۃ ہی ثابت نہیں تو اس غیرثابت شدہ عمل پر ہم کسی اور عمل کی بنیاد کیسے رکھ سکتے ہیں؟

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں