عزت بچانے کی خاطر لڑکی کا خود کشی کرنا یا لڑکی کو مارنا

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ بلا شبہ خود کشی کرنا عظیم گناہ ہے، لیکن جو لڑکیاں اپنی عزت بچانے کےلیے اپنی جان لے لیتی ہیں تو ان کے بارے میں کیا حکم ہے۔جیسا کہ 1947 میں تقسیم ہند کے وقت بھی بے شمار لڑکیوں نے اپنی عزت وعفت بچانے کےلیے ایسا کیا تھا۔ اور پھر جو لوگ اپنی بیٹیوں اور بہنوں کی حفاظت نہ کرسکنے کی وجہ سے خود قتل کردیتے ہیں تو ان بارے کیا حکم ہے؟۔

691 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن خود كشى كبيرہ گناہ ہے، جس بارے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بتايا كہ خود كشى كرنے والے شخص كو اسى طرح كى سزا دى جائےگى جس طرح اس نے اپنے آپ كو قتل كيا ہو گا۔ حضرت ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

    ’’ جس نے اپنے آپ كو پہاڑ سے گرا كر قتل كيا تو وہ جہنم كى آگ ميں ہميشہ كے ليے گرتا رہے گا، اور جس نے زہر پی كر اپنے آپ كو قتل كيا تو جہنم كى آگ ميں زہر ہاتھ ميں پكڑ كر اسے ہميشہ پيتا رہے گا، اور جس نے كسى لوہے كے ہتھيار كے ساتھ اپنے آپ كو قتل كيا تو وہ ہتھيار اس كے ہاتھ ميں ہو گا اور ہميشہ وہ اسے جہنم كى آگ ميں اپنے پيٹ ميں مارتا رہے گا‘‘۔ (بخارى:5442 ، مسلم:109)

    باقی رہا آپ کا سوال تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ

    1۔ عورت اپنی عزت بچانے کی خاطرخود قتل ہوجائے تو کیا حکم ہے؟
    2۔ عورت اپنی عزت بچانے کی خاطر کسی کی جان لے لے تو کیا حکم ہے؟
    3۔ عورت عزت بچانے کی خاطر اپنی جان لے تو کیا حکم ہے؟
    4۔ عورت کی عزت بچانے کےلیے اس کے ورثاء اس کی جان لیں تو کیا حکم ہے؟

    1۔ عزت کی خاطرعورت کا قتل ہوجانا
    پہلی بات عورت کو اپنی جان اور اپنی عزت کی حفاظت کرنے کا حق ہے۔ اور اگر وہ اپنی جان اورعزت کی حفاظت کرتے ہوئے قتل ہوجاتی ہے تو وہ شہید ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

    جواپنے مال کوبچاتے ہوئے قتل کردیا گيا وہ شہید ہے ، اورجواپنے خون کی حفاظت کرتے ہوئے قتل ہوا وہ بھی شہید ہے ، اورجوکوئی اپنی دین کوبچاتے ہوئے قتل ہوا وہ شہید ہے، اورجو کوئی اپنے گھروالوں کوبچاتے ہوئے قتل ہوا وہ بھی شہید ہے ۔( ابن حبان)

    اس حدیث میں ہے کہ

    ’’جوکوئی اپنےگھروالوں کوبچاتے ہوئے قتل ہوا وہ شہید ہے‘‘

    یعنی اپنی بیوی یا اپنی عزيزہ کی عزت بچاتے ہوئے قتل ہوا وہ شہید ہے۔ اورجب مرد کےلیے اپنی بیوی کوزنا سے بچانے کے لیے اس سے زنا کرنے والے کے ساتھ لڑائی کرنی جائز ہے چاہے وہ اسے قتل ہی کردے ، یعنی دفاع میں قتل کردے یا خود قتل ہوجائے اور شہادت کے رتبہ پر فائز ہو جائے توبالاولیٰ عورت کے لیے بھی جائز ہے کہ وہ اپنا دفاع کرے اورعزت لوٹنے کی کوشش کرنے والے سے اپنا دفاع کرے چاہے وہ خود شہید ہی کیوں نہ ہوجائے۔

    2۔ عورت کا عزت کی خاطر کسی کی جان لینا
    دوسری بات جب عورت اپنی عزت کی حفاظت کرتے ہوئے کسی کو قتل کردیتی ہے تو اس بارے میں امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے ایک حدیث ذکر کی ہے کہ ایک شخص ہذیل قبیلہ کے کچھ لوگوں کا مہمان بنا اوراس نے ایک عورت کی عزت لوٹنے کی کوشش کی توعورت نے اسے پتھرمارا تووہ قتل ہوگيا، لہذا عمررضی اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے : اللہ کی قسم کبھی بھی اس کی دیت نہيں دی جائے گی اوراس لیے بھی کہ جب اپنےمال کا جسے خرچ کرنا جائز اورمباح ہے کا دفاع کرنا جائز ہے توپھرعورت کا اپنے نفس وعزت کا دفاع کرنا اوراسے فحاشی وزنا جوکسی بھی حال میں جائز نہيں سے محفوظ کرنا مرد کا اپنے مال کی حفاظت ودفاع کرنے سے بالاولیٰ جائز ہوگا ۔ اورجب یہ ثابت ہوگيا توعورت پربھی واجب ہے کہ وہ حتی الامکان اپنا دفاع کرے، کیونکہ اس پراس مجرم کا حاوی ہوناحرام ہے ، اوراوراپنا دفاع نہ کرنا اسے اپنے اوپر حاوی کرنا ہے۔ (المغنی لابن قدامۃ : 8 / 331 )

    لہٰذا ثابت ہوا کہ اگر کوئی عورت اپنی عزت بچانے کی خاطر کسی کو قتل کردیتی ہے تو اس عورت پر کوئی گناہ نہیں ہے، اور نہ اس کی دیت دی جائے گی۔

    3۔ عورت کا اپنی عزت کی خاطر اپنی جان لینا
    4۔عورت کی عزت بچانے کی خاطر اس کے وارث کا اس کی جان لینا

    یہ دونوں باتیں درست نہیں، سنن بیہقی میں ہے کہ ابوعبدالرحمن السلمی بیان کرتے ہيں کہ عمررضی اللہ تعالی عنہ کے پاس ایک عورت آئی جسے پیاس نے مجبور کردیا اوروہ ایک چرواہے کے پاس سے گزری تواس سے پانی طلب کیا، لیکن اس نے پانی دینے سے انکار کردیا اورکہا کہ اگرتم اپنا آپ میرے سپرد کردو تومیں پانی دونگا ۔ عمررضی اللہ تعالی عنہ نے اس عورت کورجم کرنے کے بارہ میں لوگوں سے مشورہ کیا توعلی رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے یہ تومضطر اورمجبور ہے میرے خیال میں اسے کچھ نہيں کہنا چاہیے توعمررضی اللہ تعالی عنہ نے اسے حد نہيں لگائی، اورعمل بھی اسی پر ہے ۔ کہ اگر کوئی عورت کھانے یا پانی کے لیے مجبور ہوجاتی ہے اورآدمی اسے اس شرط پریہ دے کہ وہ اپنا آپ اس کے سپرد کردے اوراس عورت کوبھوک وپیاس کی بنا پرہلاک ہونے کا خدشہ ہواوراس نے اپنا آپ اس شخص کے سپرد کردیا تواس عورت پرکوئی حد نہيں ہوگی۔ اوراگریہ کہا جائے کہ کیا اس کے لیے اس حالت میں اپنے آپ کواس کے سپرد کردینا جائز ہے یا اس پرواجب ہے کہ وہ صبروتحمل سے کام لے چاہے اسی حالت میں اسے موت بھی آجائے اسے اپنے آپ کواس شخص کے سپرد نہیں کرنا چاہیے؟ توجواب میں کہا جائے گا اس کا حکم زنا پرمکرہہ یعنی مجبور کی گئی عورت کا ہی ہوگا جسے یہ کہا گيا ہو کہ یا تواپنے آپ کومیرے سپرد کردو یا پھرمیں تجھے قتل کردونگا ۔ اورمکرہہ یعنی مجبور عورت پرحد نہيں ہوتی، اس کے لیے قتل کے بدلہ میں ایسا کرنا جائز ہے ۔

    لہٰذا اگر کسی لڑکی پر خدا نخواستہ حملہ ہو اور اسے عزت کے لٹنے کا ڈر ہو تو لڑکی اپنی بساط کے مطابق مزاحمت کرے، نہ کہ اپنی جان لے۔ اسی طرح اس کے ورثاء کو بھی چاہیے کہ وہ اس کی عزت کی حفاظت کریں، چاہیں خود قتل کیوں نہ ہوجائیں۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں