قرآن کا نزل ایک ہی بار یا آہستہ آہستہ

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ قرآن کیا ایک ہی بار نازل ہوا یا پھر آہستہ آہستہ؟

266 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم 23 برس میں تھوڑا تھوڑا کرکے بوقت ضرورت نازل کیا گیا، جیسا کہ فرمان الہی ہے :

    وَقُرْآناً فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ وَنَزَّلْنَاهُ تَنْزِيلاً ۔(سورۃ الاسراء:106)
    اور قرآن کو ہم نے تھوڑ تھوڑا کرکے اس لئے اتارا ہے کہ آپ اسے بہ مہلت لوگوں کو سنائیں اور ہم نے خود بھی اسے بتدریج نازل فرمایا ۔

    شیخ سعدی رحمہ اللہ تعالی اس آیت کی تشریح بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :

    ہم نے یہ قرآن فرق کرنے والا بنا کر نازل کیا ہے جو کہ حق وباطل اورہدایت وگمراہی کے درمیا ن فرق کرنے والا ہے ۔( آپ اسے بہ مہلت لوگوں کو سنائیں) یعنی مہلت کے ساتھ تاکہ وہ اس کے معانی پر غوروفکراور تدبر کر سکیں اور اس کے علوم کا استخراج کریں ۔(اور ہم نے خود بھی اسے بتدریج نازل فرمایا ) تھوڑا تھوڑا کر کے23برس میں نازل کیا ۔ (تفسیر السعدی:760)

    جیسا کہ اس پر ایک لمبی حدیث بھی دلالت کرتی ہے

    أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ كَانَ أَوَّلَ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ فِي النَّوْمِ فَكَانَ لَا يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلَاءُ فَكَانَ يَلْحَقُ بِغَارِ حِرَاءٍ فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ قَالَ وَالتَّحَنُّثُ التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى أَهْلِهِ وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدُ بِمِثْلِهَا حَتَّى فَجِئَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ فَجَاءَهُ الْمَلَكُ فَقَالَ اقْرَأْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَنَا بِقَارِئٍ قَالَ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجُهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ قُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجُهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ قُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجُهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ الْآيَاتِ إِلَى قَوْلِهِ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرْجُفُ بَوَادِرُهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ فَقَالَ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ قَالَ لِخَدِيجَةَ أَيْ خَدِيجَةُ مَا لِي لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي فَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ قَالَتْ خَدِيجَةُ كَلَّا أَبْشِرْ فَوَاللَّهِ لَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا فَوَاللَّهِ إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ وَتَحْمِلُ الْكَلَّ وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَقْرِي الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلٍ وَهُوَ ابْنُ عَمِّ خَدِيجَةَ أَخِي أَبِيهَا وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعَرَبِيَّ وَيَكْتُبُ مِنْ الْإِنْجِيلِ بِالْعَرَبِيَّةِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ فَقَالَتْ خَدِيجَةُ يَا ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنْ ابْنِ أَخِيكَ قَالَ وَرَقَةُ يَا ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَى فَأَخْبَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرَ مَا رَأَى فَقَالَ وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَى مُوسَى لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا لَيْتَنِي أَكُونُ حَيًّا ذَكَرَ حَرْفًا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَمُخْرِجِيَّ هُمْ قَالَ وَرَقَةُ نَعَمْ لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ بِمَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا أُوذِيَ وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ حَيًّا أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ وَفَتَرَ الْوَحْيُ فَتْرَةً حَتَّى حَزِنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۔(بخاری:4953)
    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بیوی عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت سے پہلے سچے خواب دکھائے جاتے تھے چنانچہ اس دور میں آپ جو خواب بھی دیکھ لیتے وہ صبح کی روشنی کی طرح بیداری میں نمودار ہوتا ۔ پھر آپ کو تنہائی بھلی لگنے لگی ۔ اس دور میں آپ غار حرا تنہا تشریف لے جاتے اور آپ وہاں ” تحنث “ کیا کرتے تھے ۔ عروہ نے کہا کہ ” تحنث “ سے عبادت مراد ہے ۔ آپ وہاں کئی کئی راتیں جاگتے ، گھر میں نہ آتے اور اس کے لئے اپنے گھر سے توشہ لے جایا کرتے تھے ۔ پھر جب توشہ ختم ہوجاتا پھر خدیجہ رضی اللہ عنہا کے یہاں لوٹ کر تشریف لاتے اور اتنا ہی توشہ پھر لے جاتے ۔ اسی حال میں آپ غار حرا میں تھے کہ دفعتاً آپ پر وحی نازل ہوئی چنانچہ فرشتہ آپ کے پاس آیا اور کہا پڑھئے ! آنحضرت نے فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔ آنحضور نے بیان کیا کہ مجھے فرشتہ نے پکڑ لیا اور اتنا بھینچا کہ میں بے طاقت ہوگیا پھر انہوں نے مجھے چھوڑدیا اور کہا کہ پڑھئے ! میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔ انہوں نے پھر دوسری مرتبہ مجھے پکڑ کر اس طرح بھینچا کہ میں بے طاقت ہو گیا اور چھوڑنے کے بعد کہاکہ پڑھئے ! میں نے اس مرتبہ بھی یہی کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔ انہوں نے تیسری مرتبہ پھر اسی طرح مجھے پکڑکر بھینچا کہ میں بے طاقت ہوگیا اور کہا کہ پڑھئے ! پڑھئے ! اپنے پروردگار کے نام کے ساتھ جس نے سب کو پیدا کیا ، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ہے ، آپ پڑھئے اور آپ کا رب کریم ہے ، جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی ہے ، سے آیت علم الانسان مالم یعلم تک پھر آنحضرت ان پانچ آیات کو لے کر واپس گھر تشریف لائے اور گھبراہٹ سے آپ کے مونڈھے اور گردن کا گوشت پھڑک ( حرکت کر ) رہا تھا ۔ آپ نے خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچ کر فرمایا کہ مجھے چادر اڑھا دو ! مجھے چادراڑھادو ! چنانچہ انہوں نے آپ کو چادر اڑھا دی ۔ جب گھبراہٹ آپ سے دور ہوئی تو آپ نے خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کہا اب کیا ہوگا مجھے تو اپنی جان کا ڈر ہو گیا ہے پھر آپ نے سارا واقعہ انہیں سنایا ۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا ایسا ہر گز نہ ہوگا ، آپ کو خوشخبری ہو ، اللہ کی قسم ! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا ۔ اللہ کی قسم ! آپ تو صلہ رحمی کرنے والے ہیں ، آپ ہمیشہ سچ بولتے ہیں ، آپ کمزور و ناتواں کا بوجھ خود اٹھالیتے ہیں ، جنہیں کہیں سے کچھ نہیں ملتا وہ آپ کے یہاں سے پالیتے ہیں ۔ آپ مہمان نوازہیں اور حق کے راستے میں پیش آنے والی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں پھر خدیجہ رضی اللہ عنہا آنحضرت کو لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس آئیں وہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچا اور آپ کے والد کے بھائی تھے وہ زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہو گئے تھے اور عربی لکھ لیتے تھے جس طرح اللہ نے چاہا انہوں نے انجیل بھی عربی میں لکھی تھی ۔ وہ بہت بوڑھے تھے اور نابینا ہو گئے تھے ۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا چچا اپنے بھتیجے کا حال سنئے ۔ ورقہ نے کہا بیٹے ! تم نے کیا دیکھا ہے ؟ آپ نے ساراحال سنایا جو کچھ آپ نے دیکھا تھا ۔ اس پر ورقہ نے کہا یہی وہ ناموس ( حضرت جبریل علیہ السلام) ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آتے تھے ۔ کاش میں تمہاری نبوت کے زمانہ میں جوان اور طاقت ور ہوتا ۔ کاش میں اس وقت تک زندہ رہ جاتا ، پھر ورقہ نے کچھ اورکہا کہ جب آپ کی قوم آپ کو مکہ سے نکالے گی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا واقعی یہ لوگ مجھے مکہ سے نکال دیں گے ؟ ورقہ نے کہا ہاں ، جو دعوت آپ لے کر آئے ہیں اسے جو بھی لے کر آیا تو اس سے عداوت ضرور کی گئی ۔ اگر میں آپ کی نبوت کے زمانہ میں زندہ رہ گیا تومیں ضرور بھرپور طریقہ پر آپ کا ساتھ دوں گا ۔ اس کے بعد ورقہ کا انتقال ہوگیا اور کچھ دنوں کے لئے وحی کا آنا بھی بند ہوگیا ۔ آپ وحی کے بند ہوجانے کی وجہ سے غمگین رہنے لگے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں