کمپنیوں کی طرف سے ایڈوانس دیے جانے والے بیلنس کی حیثیت
سوال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سوال:
بہن نے سوال کیا ہے کہ موبائل کمپنیز ایڈوانس بیلنس دیتی ہیں، اور پھر جب بیلنس لوڈ کروایا جائے تو کچھ رقم مزید کاٹ لی جاتی ہے، تو کیا یہ سود کے ذمرے میں آتا ہے؟
جواب ( 1 )
جواب:
بہن! اس مسئلہ میں مابین علماء اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض علماء نے جائز اور بعض نے ناجائز کہا ہے۔ اوراس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ اس دیے جانے والے ایڈوانس کے حوالے سے کمپنی نے مختلف اوقات میں مختلف وضاحت دی ، جس کی وجہ سے دارالافتاء کا جواب بھی مختلف ہوا۔
جن علماء نے اسے جائز کہا ہے، وہ کہتے ہیں کہ
1۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اضافی رقم کمپنی کے سروس چارجز اور حکومتی ٹیکس ہوتا ہے جو وہ ایزی لوڈ اور کارڈ لوڈ پر بھی کاٹ لیتے ہیں۔ آج کل اگر 100 روپے کا کارڈ لوڈ کریں تو 74 روپے آتے ہیں، اب کیا ہم یہاں بھی یہ کہیں گے کہ کمپنی نے 74 دے کر ہم سے 100 روپے لئے ہیں۔ یہاں ایسا کوئی بھی نہیں کہتا ہے، ہر کوئی یہی سمجھتا ہے کہ یہ حکومتی ٹیکس اور سروس چارجز ہیں جو ہر کارڈ کے ساتھ ساتھ ہر کال پر بھی کٹتے رہتے ہیں اور یہ ایسے اصول ہیں جو سم لیتے وقت ہی کمپنی آپ کو بتا دیتی ہے کہ ہم ان ان شرائط پر آپ کو اپنی کمپنی کی سروس مہیا کریں گے، اور ہم کمپنی کی ان شرائط کو نہ صرف قبول کرتے ہیں بلکہ تحریری معاہدہ بھی کرتے ہیں کہ ہم کمپنی کی تمام شرائط سے متفق ہیں۔
2۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے کمپنی سے نقد رقم نہیں لی ہوتی بلکہ ایک سروس اور خدمت لی ہوتی ہے، جس کے چارجز ہم خدمت کے حصول کے بعد ادا کرتے ہیں۔ (جبکہ کارڈ یا ایزی لوڈ میں پہلے ہی ادا کر دیتے ہیں۔) اب اس کو سود کیسے کہا جا سکتا ہے؟ ۔سود تو یہ ہے کہ نقدی رقم کے بدلے میں ہم زیادہ رقم ادا کریں، یہاں تو ہم نے نقدی رقم لی ہی نہیں ہے۔ اور پھر یہ بھی یاد رہے کہ یہ سروس چارجز ایزی لوڈ اور کارڈ پر کاٹے گئے چارجز سے کم ہیں۔ فرق صرف تقدیم وتاخیر کا ہے۔
لیکن جو علماء ناجائز کہتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ یہ سود ہے۔ بظاہر کمپنی اسے سروس چارجر کا نام دیتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ سود ہی ہے۔ اور پھر کمپنی خود اسے لون کا نام دیتی ہے، اس لیے اس سروس کو ’’ایئرٹائم‘‘ کہنا بھی درست نہیں۔
نوٹ:
مسئلہ میں اختلاف کی وجہ سے ہمارے لیے بہتر رائے یہ ہے کہ ایڈوانس بیلنس کے استعمال سے بچنا چاہیے۔ لیکن اگرکہیں استعمال کرنا بھی پڑ جائے تو بغیر کسی مجبوری کے یہ سروس استعمال نہ کریں۔ اور یہ اعتدال والی راہ ہے۔ ان شاءاللہ
واللہ اعلم بالصواب