تشہد (التحیات) کی مشروعیت کا پس منظر، واقعہ کی وضاحت

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ ایک اس طرح کا میسج گردش کر رہا ہے: جس میں ہے کہ ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ” ﺍَﻟﺘَﺤِﻴَّﺎﺕُ ” ﮐﺎ ﭘﺲ ﻣﻨﻈﺮ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﻢ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﭘﮍﮬﺘﮯ ﮨﯿﮟ؟ ” ﺍَﻟﺘَﺤِﻴَّﺎﺕُ” ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﺍﮨﻢ ﺩﻋﺎ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﮨﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﻭﺯ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﺩﮬﺮﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺐ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻝ ﭘﮕﮭﻞ ﮔﯿﺎ- ﺩﺭﺣﻘﯿﺖ ” ﺍَﻟﺘَﺤِﻴَّﺎﺕُ ” ﺍﺱ ﻣﮑﺎﻟﻤﮯ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺣﺼﮧ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﺍﻟﻠﮧ ﺭﺏ ﺍﻟﻌﺰﺕ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﻣﺤﻤﺪ صلی اللہ علیہ وسلم ﮐﮯ ﻣﺎﺑﯿﻦ ﮨﻮﺍ، ﺟﺐ ﻧﺒﯽ صلی اللہ علیہ وسلم ﺍﻟﻠﮧ ﺭﺏ ﺍﻟﻌﺰﺕ ﺳﮯ ﻣﻠﮯ ﺗﻮ ﺁﭖ صلی اللہ علیہ وسلم ﻧﮯ ، ﺍَﺳَّﻠَﺎﻡُ ﻋَﻠَﯿﮑُﻢ ‘ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺎ- ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺱ ﺫﺍﺕ ﮐﻮ ﮐﯿﺴﮯ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﮯ ﺟﻮ ﺑﺬﺍﺕ ﺧﻮﺩ ﭘﯿﮑﺮ ﺳﻼﻡ ﮨﮯ؟ ﮨﻢ ﺍﺳﮯ ﺳﻼﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺳﺎﺭﯼ ﺳﻼﻣﺘﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺧﺎﻟﻖ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﮨﮯ. ﻟﮩﺬﺍ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ صلی اللہ علیہ وسلم ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ: ” ﺍَﻟﺘَﺤِﻴَّﺎﺕُ ﻟِﻠَّﻪِ ﻭَﺍﻟﺼَّﻠَﻮَﺍﺕُ ﻭَﺍﻟﻄَّﻴِّﺒَﺎﺕُ ” ﺗﻤﺎﻡ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﯽ ﺑﺪﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﻟﯽ ﻋﺒﺎﺩﺍﺕ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﯿﮟ. ﺍﻟﻠﮧ ﺳﺒﺤﺎﻥ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻧﮯ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﮐﯿﺎ: ﺍﻟﺴَّﻠَﺎﻡُ ﻋَﻠَﻴْﻚَ ﺃَﻳُّﻬَﺎ ﺍﻟﻨَّﺒِﻲُّ ﻭَﺭَﺣْﻤَﺔُ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﻭَﺑَﺮَﻛَﺎﺗُﻪُ ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻧﺒﯽ ﺁﭖ ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺳﻼﻡ ﺍﻭﺭ ﺑﺮﮐﺘﯿﮟ ﮨﻮﮞ. ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ صلی اللہ علیہ وسلم ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾا: ﺍﻟﺴَّﻠَﺎﻡُ ﻋَﻠَﻴْﻨَﺎ ﻭَﻋَﻠَﻰ ﻋِﺒَﺎﺩِ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺍﻟﺼَّﺎﻟِﺤِﻴﻦَ، ﺳﻼﻡ ﮨﻮ ﮨﻢ ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺻﺎﻟﺢ ﺑﻨﺪﻭﮞ ﭘﺮ۔ ﻧﻮﭦ۔ ﻧﺒﯽ صلی اللہ علیہ وسلم ﻧﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺻﺎﻟﺢ ﺑﻨﺪﻭﮞ ﭘﺮ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺣﺒﯿﺐ صلی اللہ علیہ وسلم ﮐﮯ ﻣﺎﺑﯿﻦ ﯾﮧ ﻣﮑﺎﻟﻤﮧ ﺳﻦ ﮐﺮﻓﺮﺷﺘﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺃَﺷْﻬَﺪُ ﺃَﻥْ ﻟَﺎ ﺇِﻟَﻪَ ﺇِﻟَّﺎ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻭَﺣْﺪَﻩُ ﻟَﺎ ﺷَﺮِﻳﻚَ ﻟَﻪُ ﻭَﺃَﺷْﻬَﺪُ ﺃَﻥَّ ﻣُﺤَﻤَّﺪًﺍ ﻋَﺒْﺪُﻩُ ﻭَﺭَﺳُﻮﻟُﻪ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻌﺒﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ صلی اللہ علیہ وسلم ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺑﻨﺪﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﺳ ﮑﮯ ﭘﯿﻐﻤﺒﺮ ﮨﯿﮟ۔ ﺳﺒﺤﺎﻥ ﺍﻟﻠﮧ ! ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻣﮑﺎﻟﻤﮯ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﻭﺯ ﻣﺮﮦ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﮐﮧ ﻧﻤﺎﺯ ﮨﻤﯿﮟ ﮐﯿﺴﮯ ﻋﻨﺎﯾﺖ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ۔ ﺍﺱ ﻣﻌﻠﻮﻣﺎﺗﯽ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﮐﻮ ﺷﯿﺌﺮ ﮐﯿﺠﺌﮯ۔ ﺗﺨﯿﻞ ﮐﯿﺠﺌﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﮒ ﺍﺳﮯ ﺟﺎﻧﯿﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺍﺟﺮ ﭘﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔ ﺟﺰﺍﮐﻢ ﺍﻟﻠﮧ ﺧﯿﺮﺍ ﮐﺜﯿﺮﺍ ﮐﺜﯿﺮﺍ … اس کی کیا حقیقت ہے؟

1609 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:
    بہن! التحیات کا تعلق معراج سے جوڑنا بالکل بے بنیاد ہے۔ اور اس قصہ کی کوئی اصل نہیں، کیونکہ معراج پہ نماز فرض ہوئی، اور التحیات نماز کے فرض ہونے کے بعد فرض ہوا، لوگ نماز میں التحیات کی جگہ اپنی مرضی کے الفاظ پڑھا کرتے تھے ، پھر انہیں نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے التحیات کے کلمات سکھائے ۔ جیسا کہ اس روایت سے واضح ہے:

    عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا إِذَا كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّلاَةِ، قُلْنَا: السَّلاَمُ عَلَى اللَّهِ مِنْ عِبَادِهِ، السَّلاَمُ عَلَى فُلاَنٍ وَفُلاَنٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لاَ تَقُولُوا السَّلاَمُ عَلَى اللَّهِ، فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّلاَمُ، وَلَكِنْ قُولُوا: التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلاَمُ
    عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، فَإِنَّكُمْ إِذَا قُلْتُمْ أَصَابَ كُلَّ عَبْدٍ فِي السَّمَاءِ أَوْ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ، أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ يَتَخَيَّرُ مِنَ الدُّعَاءِ أَعْجَبَهُ إِلَيْهِ، فَيَدْعُو۔(بخاری: 835)
    عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ نے فرمایا کہ ہم جب نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز پڑھا کرتے تھے تو ہم کہتے تھے السَّلاَمُ عَلَى اللَّهِ مِنْ عِبَادِهِ، السَّلاَمُ عَلَى فُلاَنٍ وَفُلاَنٍ (اللہ پر اس کے بندوں کی طرف سے سلامتی ہو، اور فلاں فلاں پر سلامتی ہو) تو نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا السَّلاَمُ عَلَى اللَّهِ نہ کہو، کیونکہ اللہ تعالى ہی ’سلام‘ ہے بلکہ تم کہو: التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلاَمُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، (ہمہ قسم قولی، فعلی، اور مالی عبادات اللہ ہی کے لیے ہیں، اے نبی آپ پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت اور برکتیں ہوں، ہم پر بھی اور تمام تر نیک پر بندوں پر بھی سلامتی ہو) جب تم یہ کہہ لو گے تو (سلام) زمین وآسمان میں یا زمین وآسمان کے درمیان موجود ہر نیک بندے کو پہنچ جائے گا، (پھر کہو) أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ (میں گواہی دیتا ہوں کہ
    اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور اس بات کی بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلى اللہ علیہ وسلم اسکے بندے اور رسول ہیں ) پھر اس کے بعد جو دعاء تمہیں پسند ہو وہ کر لو۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں