والدین کا اولاد سے ہدیہ (تحفہ، گفٹ) کی ہوئی چیز واپس لینا

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ اس کی والدہ نے ایک پلاٹ گفٹ کیا، بعد ازاں ا س کے متصل دوسرا پلاٹ خریدکرکے دونوں پلاٹوں پہ گھر بنالیا۔اب 18 سال بعد پلاٹ کی واپسی کا مطالبہ ہے۔
1۔ تو کیا ایسا کرنا درست ہے؟
2۔اس حوالے سے بہن کا طرز عمل کیا ہونا چاہیے؟
3۔بہن کو اپنے خاوند کی طرف سے سخت تنقید کا نشانہ بھی بننا پڑ سکتا ہے۔

620 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    سب سے پہلے تویہ جان لینا چاہیے کہ والدین کا اپنی اولاد میں سے کسی ایک کو کوئی چیز ہدیہ (تحفہ، گفٹ) کرنا اور باقی اولاد کو نہ کرنا، تو یہ اسلامی رو سے درست نہیں بلکہ ظلم وجبرہے۔دوسری بات اگر والدین نے اپنی اولاد میں سے کسی بچے کو کوئی چیز گفٹ کردی تو وہ اسے واپس لے سکتے ہیں۔والدین کا ایسا کرنا درست ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے۔
    حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَمُحَمَّدِ بْنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، أَنَّهُمَا حَدَّثَاهُ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، أَنَّ أَبَاهُ أَتَى بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي نَحَلْتُ ابْنِي هَذَا غُلاَمًا، فَقَالَ: «أَكُلَّ وَلَدِكَ نَحَلْتَ مِثْلَهُ»، قَالَ: لاَ، قَالَ «فَارْجِعْهُ»۔ ( صحیح بخاری:2586)
    ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ابن شہاب سے، وہ حمید بن عبدالرحمن اور محمد بن نعمان بن بشیر سے اور ان سے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما نے کہا ان کے والد انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام بطور ہبہ دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، کیا ایسا ہی غلام اپنے دوسرے لڑکوں کو بھی دیا ہے؟ انہوں نے کہا نہیں، تو آپ نے فرمایا کہ پھر ( ان سے بھی ) واپس لے لے۔
    اسی طرح ایک اور حدیث ہے
    حَدَّثَنَا حَامِدُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، وَهُوَ عَلَى المِنْبَرِ يَقُولُ: أَعْطَانِي أَبِي عَطِيَّةً، فَقَالَتْ عَمْرَةُ بِنْتُ رَوَاحَةَ: لاَ أَرْضَى حَتَّى تُشْهِدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي أَعْطَيْتُ ابْنِي مِنْ عَمْرَةَ بِنْتِ رَوَاحَةَ عَطِيَّةً، فَأَمَرَتْنِي أَنْ أُشْهِدَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «أَعْطَيْتَ سَائِرَ وَلَدِكَ مِثْلَ هَذَا؟»، قَالَ: لاَ، قَالَ: «فَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلاَدِكُمْ»، قَالَ: فَرَجَعَ فَرَدَّ عَطِيَّتَهُ۔( صحیح بخاری:2587)
    ہم سے حامد بن عمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا حصین سے، وہ عامر سے کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے سنا وہ منبر پر بیان کررہے تھے کہ میرے باپ نے مجھے ایک عط یہ دیا، تو عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہ ( نعمان کی والدہ ) نے کہا کہ جب تک آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر گواہ نہ بنائیں میں راضی نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ ( حاضر خدمت ہوکر ) انہوں نے عرض کیا کہ عمرہ بنت رواحہ سے اپنے بیٹے کو میں نے ایک عط یہ دیا تو انہوں نے کہا کہ پہلے میں آپ کو اس پر گواہ بنالوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اسی جیسا عطیہ تم نے اپنی تمام اولاد کو دیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کو قائم رکھو۔ چنانچہ وہ واپس ہوئے اور ہد یہ واپس لے لیا۔
    نوٹ
    والدہ کا بھی وہی حکم ہے جو والد کا ہے ۔
    جب اسلام نے والدین کو اپنی اولاد کو تحفہ میں دی گئی چیز واپس لینے کا اختیار دیا ہے، تو پھربہن آپ کا طرز عمل رضا مندی ہی ہونا چاہیے۔ رہی آپ کے خاوند سے تنقید والی بات تو وہ بات چیت کے ذریعے احسن انداز میں حل کی جاسکتی ہے۔
    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں