والدین کےلیے ایصال ثواب کا شرعی طریقہ

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ میں اکثر اپنے ابو کےلیے ایصال ثواب کے طور پر نوافل پڑھتی ہوں تو کیا یہ میرا عمل ٹھیک ہے؟ کیا اس کا ثواب ابو کو پہنچتا ہے؟ یا میں کیا کروں کہ جس سے میرے ابو کو ثواب پہنچتا رہے؟

535 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! سب سے پہلے تو آپ یہ جان لیں کہ عبادات کے بارے میں یہ اصول ہے کہ جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ثابت ہوچکا ہے اسی پر عمل کیا جائے۔ یہ قطعی اصول ہے، اس کے خلاف کسی بھی صورت نہیں جایا جاسکتا۔ ورنہ وہ بدعت وغیرہ کے ذمرے میں آجائے گا، جس کے بارے میں وضاحت ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔

    جو آپ طریقہ کرتی ہیں کہ نوافل پڑھ کر والد کو بخش دیتی ہیں، تو اس طریقہ سے ثواب آپ کے والد تک نہیں پہنچتا، کیونکہ یہ عمل آپ نے کیا ہے، لہٰذا اس کا ثواب آپ کو ملے گا۔ کسی اور کو نہیں۔ اور پھر اس طرح ایصال ثواب کی کوئی دلیل شریعت میں موجود نہیں ہے۔ باقی میت کو ایصال ثواب کا درست طریقہ وہی ہے، جو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

    عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثٍ صَدَقَةٌ جَارِيَةٌ وَعِلْمٌ يُنْتَفَعُ بِهِ وَوَلَدٌ صَالِحٌ يَدْعُو لَهُ۔(ترمذی:1376)
    ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے سوائے تین چیزوں کے: ایک صدقہ جاریہ ہے، دوسرا ایسا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور تیسرا نیک وصالح اولاد ہے جو اس کے لیے دعاکرتی رہے۔

    اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تین بیٹیاں رضی اللہ عنہن فوت ہوئیں، لیکن یہ کہیں بھی وارد نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی کی طرف سے قرآن پڑھا ہو، یا خاص ان کی طرف سے قربانی، روزہ، یا نماز پڑھی ہو، ایسے ہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف سے بھی کوئی ایسا عمل منقول نہیں ہے، اور اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہم سے پہلے یہ کام کر چکے ہوتے۔

    اور جن اعمال کے بارے میں میت تک ثواب پہنچنے کا استثناء دلائل میں موجود ہے ان میں حج، عمرہ، واجب روزہ، صدقہ، اور دعا شامل ہیں۔ اوراس کے ساتھ یہ تین اعمال بھی۔ فوت ہوجانے والے کا صدقہ جاریہ دوسرا اس کا ایسا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور تیسرا نیک وصالح اولاد جو اس کے لیے دعاکرتی رہے۔

    لہٰذا آپ اپنے والد کےلیے حج، عمرہ اور دعا کرسکتی ہیں، جس کا فائدہ آپ کے والد کو پہنچے گا۔ ان شاءاللہ

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں