اسلامی احکامات کا مذاق اڑانا اورانہیں ٹھکرادینا

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ ان کے ابو وفات پاگئے تھے، سو امی عدت کی حالت میں ہیں۔ پہلے پہل زیورات وغیرہ اتار لیے تھے مگر عدت پوری ہونے سے پہلے ہی بھانجی نے دوبارہ پہنا دیے، جب بہن نے بھانجی کو روکا اور شرعی مسئلہ بتایا تو بھانجی غصہ ہوگئی، اور کہا کہ یہ ہندوانہ سوچ ہے۔ اس بارے وضاحت فرمائیں

435 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:
    بہن شرعی طور پر بیوہ پر جو پابندیاں عائد ہوتی ہیں ان میں یہ ہے کہ

    1۔ خواتین پر عدت کے دوران پابندی ہے کہ وہ زیب وزینت نہ کرے ، اچھا لباس نہ پہنے، سرمہ کنگھی وغیرہ نہ کرے ، بلا امر مجبوری گھر سے باہر نہ نکلے ۔
    2۔ اگر کوئی ایسی مجبوری ہے کہ گھر سے باہر نکلے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے تو عورت دوران عدت گھر سے باہر جا سکتی ہے۔
    3۔ مکمل طور پر حجاب ونقاب کرکے ان سے ضروری بات چیت کر سکتی ہے اور سن سکتی ہے ۔ شریعت نے اس بارہ میں کوئی پابندی نہیں لگائی ۔ ہاں غیر ضروری باتیں کرنا ممنوع ہے ۔

    اور ایک کلمہ گو انسان کو کسی بھی شرعی حکم یا مسئلہ کو تسلیم کرنے میں چوں چراں نہیں کرنی چاہیے۔ اور نہ ہی تاویل وغیرہ تلاش کرنی چاہیے۔ بلکہ مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا سب سے پہلا یہ حق اور فرض ہے کہ جو بھی چیز ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو، یا جس چیز کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیں، ہمیں ہر حال میں اسے دل وجان سے تسلیم کرنا چاہیے۔ اور یہی ایمان کا تقاضا ہے اور ایمان میں مطلوب بھی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

    وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا۔ (سورۃ الحشر:7)
    اورتمہیں جو کچھ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ ۔

    لہٰذا جو بھی شعائر اسلامیہ، احکامات اسلامیہ کو ٹھکراتی ہے، یا ان کا مذاق اڑاتی ہے، اور کہتی ہے کہ یہ تو ہندوانہ رسوم ورواج ہیں۔ یہ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کے ساتھ مذاق ہے، جو کہ کفر ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے

    وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ ۚ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ۔ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ۚ إِن نَّعْفُ عَن طَائِفَةٍ مِّنكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ۔ (سورۃ التوبہ:65، 66)
    اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو یونہی آپس میں ہنس بول رہے تھے۔ کہہ دیجئے کہ اللہ، اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے ره گئے ہیں؟ تم بہانے نہ بناؤ یقیناً تم اپنے ایمان کے بعد بے ایمان ہوگئے، اگر ہم تم میں سے کچھ لوگوں سے درگزر بھی کر لیں تو کچھ لوگوں کو ان کے جرم کی سنگین سزا بھی دیں گے۔

    لہٰذا اسلامی احکامات کو ہندوانہ رسوم ورواج کہنے والی یا اس سےتشبیہ دینے والی بہن نے یقیناً لاعلمی اور جہالت میں بات کی ہوگی، اسے مسئلہ کا علم نہیں ہوگا، بہن کو چاہے کہ وہ رب کی دربار میں سچے دل سے توبہ کرے۔ اور آئندہ اسلامی شعائر کا مذاق نہ اڑانے کا عہد وپیمان کرے۔ بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والے بڑے مہربان ہیں۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں