خواتین کی ماہواری میں کثرت،شرعی حکم اورعلاج
سوال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سوال:
بہن نے سوال کیا ہے کہ اس کی دوبہنوں کے خاص ایام میں بہت زیادہ مسئلہ ہے۔ جب آتے ہیں تو 2، 2 ماہ لگاتار اور جب نہیں آتے تو 3 ماہ تک نہیں آتے۔ اس بارے میں ان کےلیے کیا حکم ہے؟۔ اور اس کی دواء کیا ہے؟
جواب ( 1 )
جواب:
شادی سے پہلے عورتوں کو دو طرح کے خون کے خروج کا سامنا ہوتا ہے۔ ایک حیض اور دوسرا استحاضہ۔ حیض وہ خون ہوتا ہے جو ہر ماہ کے مخصوص ایام میں خارج ہوتا ہے۔ جس کی مدت میں اختلاف ہے، بہت سے فقہاء كا كہنا ہے كہ حيض كى كم از كم مدت ايک رات اور دن اور زيادہ سے زيادہ مدت پندرہ دن ہے۔ لیکن شیخ الاسلام امام ابن تیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حيض كى كم يا زيادہ كى كوئى مدت مقرر نہيں، بلكہ جب بھى حيض کی مكمل صفات كے ساتھ خون آئے تو وہ حيض شمار ہوگا، چاہے كم ايام ہو يا زيادہ۔ اور یہی قول راجح ہے۔کہ حیض کی کوئی مدت نہیں نہ کم کی او رنہ زیادہ کی۔ بس اس کی صفات سے ایسے خون کی پہنچان کی جائے گی۔
دوسرا حيض كے علاوہ استحاضہ كا خون ہوتا ہے، جو کچھ وجوہات کی بناء پر ایک رگ سے خارج ہوتا ہے۔ جس كى صفات حيض كے خون سے مختلف ہيں، اور اس كے احكام بھى حيض سے مختلف ہيں، استحاضہ كا خون درج ذيل صفات كے ساتھ پہچانا جا سكتا ہے۔
رنگت:
حيض كا خون سياہ ہوتا ہے، اور استحاضہ كا خون سرخ
كيفيت:
حيض كا خون گاڑھا اور غليظ اور استحاضہ كا خون پتلا ہوتا ہے۔
بو:
حيض كا خون بدبودار اور كريہہ اور استحاضہ كا خون بدبودار نہيں ہوتا كيونكہ يہ عام رگ سے خارج ہوتا ہے۔
جمنا:
جب حيض كا خون آئے تو جمتا نہيں، اور استحاضہ كا خون جم جاتا ہے كيونكہ يہ رگ كا خون ہے۔
ان صفات كے ساتھ حيض اور استحاضہ كے خون کے مابین پہچان ہو سكتى ہے اس ليے جب حيض والى صفات پائى جائيں تو اسے حيض شمار كيا جائے گا، ورنہ وہ خون استحاضہ ہوگا۔ اور حيض آنے كى صورت ميں نماز روزہ كى ادائيگى نہيں ہوتى ليكن استحاضہ نماز روزہ كى ادائيگى ميں ركاوٹ نہيں بنتا، بلكہ اگر خون نہ ركے تو صرف كپڑا وغيرہ لپيٹ كر ہر نماز كے ليے وضوء كر کے نماز ادا كى جائيگى، چاہے دوران نماز بھى خون آتا رہے، کوئی مضائقہ نہیں۔
باقی دوائی کےلیے کسی اچھے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
واللہ اعلم بالصواب