مدارس ومساجد پر زکوۃ خرچ کرنا

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ جو زکوۃ کے آٹھ مصارف ہیں ان میں ساتواں مصرف سبیل اللہ ہے، تو کیا فی سبیل اللہ میں مدارس ومساجد بھی شامل ہیں یعنی مدارس ومساجد کو ہم زکوۃ دے سکتے ہیں؟

273 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! صرف مسجد اور اس کے کسی مصرف پر زکوٰۃ اور فطرانہ کی رقم خرچ نہیں کی جا سکتی۔ اسی طرح زکوٰۃ اور فطرانہ کی رقم مسجد کے قاری صاحب کو بھی نہیں دی جا سکتی۔ ہاں اگر قاری صاحب غریب ومسکین ہیں، اور زکوۃ کےمستحق ہیں تو پھر زکوۃ اور فطرانہ کی رقم دی جاسکتی ہے۔ باقی زکوۃ کے مصارف میں جو ایک مصرف فی سبیل اللہ ہے، اس سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ہے جیسا کہ مختلف احادیث سے اس کی وضاحت بھی ہوتی ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ کا مقصود چونکہ اعلاء کلمۃ اللہ ہوتا ہے لہٰذا اعلاء کلمۃ اللہ میں دینی مدارس بھی شامل ہیں۔ اور جو لوگ کسی بھی طرح اعلاء کلمۃ اللہ کا فریضہ نبھا رہے ہوں، تو ان پر بھی زکوۃ خرچ کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کو بھی فی سبیل اللہ میں شامل فرمایا ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام معقل اسدیہ رضی اللہ عنہا کو اس اونٹ پر حج کرنے کا حکم دیا جسے ان کے شوہر نے فی سبیل اللہ وقف کر دیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا تھا کہ حج بھی فی سبیل اللہ ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف ہے

    أُمِّ مَعْقَلٍ قَالَتْ لَمَّا حَجَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّةَ الْوَدَاعِ وَكَانَ لَنَا جَمَلٌ فَجَعَلَهُ أَبُو مَعْقِلٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأَصَابَنَا مَرَضٌ وَهَلَكَ أَبُو مَعْقِلٍ وَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ حَجِّهِ جِئْتُهُ فَقَالَ يَا أُمَّ مَعْقِلٍ مَا مَنَعَكِ أَنْ تَخْرُجِي مَعَنَا قَالَتْ لَقَدْ تَهَيَّأْنَا فَهَلَكَ أَبُو مَعْقِلٍ وَكَانَ لَنَا جَمَلٌ هُوَ الَّذِي نَحُجُّ عَلَيْهِ فَأَوْصَى بِهِ أَبُو مَعْقِلٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَ فَهَلَّا خَرَجْتِ عَلَيْهِ فَإِنَّ الْحَجَّ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَأَمَّا إِذْ فَاتَتْكِ هَذِهِ الْحَجَّةُ مَعَنَا فَاعْتَمِرِي فِي رَمَضَانَ فَإِنَّهَا كَحَجَّةٍ فَكَانَتْ تَقُولُ الْحَجُّ حَجَّةٌ وَالْعُمْرَةُ عُمْرَةٌ وَقَدْ قَالَ هَذَا لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَدْرِي أَلِيَ خَاصَّةً۔ (ابوداؤد:1989)
    سیدہ ام معقل رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کیا تو ہمارے پاس ایک ہی اونٹ تھا ۔ ابومعقل رضی اللہ عنہ نے اس کو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے وقف کر دیا تھا ۔ ہمیں بیماری نے آ لیا اور ابو معقل فوت ہو گئے ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حج سے فارغ ہو کر آئے تو میں حاضر خدمت ہوئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اے ام معقل ! کیا مانع تھا کہ تو ہمارے ساتھ حج کے لیے نہیں گئی ؟ “ اس نے کہا : ہم تو تیار تھے مگر ابو معقل فوت ہو گئے ، ہمارا ایک ہی اونٹ تھا جس پر ہمیں حج کرنا تھا ، تو ابومعقل نے اس کے بارے میں وصیت کر دی کہ یہ جہاد فی سبیل اللہ کے لیے وقف ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” تو اسی پر کیوں نہ چل دی ؟ بلاشبہ حج ” فی سبیل اللہ “ ہی ہے ۔ خیر جب تم سے ہمارے ساتھ یہ حج کرنا فوت ہو گیا ہے تو رمضان میں عمرہ کرنا ، بلاشبہ یہ حج کی مانند ہے ۔ “ چنانچہ وہ کہا کرتی تھیں کہ حج ، حج ہے اور عمرہ ، عمرہ ہے ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے یہ فرمایا تھا ، معلوم نہیں یہ بات میرے لیے خاص تھی ( یا امت کے لیے عام ) ۔

    لہٰذا مساجد کو زکوۃ نہیں دی جاسکتی، لیکن مدارس جو اعلاء کلمۃ اللہ کےلیے کام کررہے ہوں، یا اسی طرح وہ لوگ جو اس نہج پرکام کررہے ہوں تو ان کو زکوۃ وفطرانہ دیا جاسکتا ہے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں