مرد حضرات کا رقص کرنا

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ کیا مرد حضرات کا رقص کرنا جائز ہے یا نہیں؟

397 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! رقص کرنا مرد وعورت دونوں کےلیے ناجائز ہے۔ بعض لوگ رقص کے جواز کےلیے مسنداحمد کی ایک حدیث پیش کرتے ہیں کہ

    عن انس قال کانت الحبشۃ یزفنون بین یدی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ویرقصون و یقولون: ”محمد عبد صالح” فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: مایقولون؟ قالوا یقولون: ”محمد عبد صالح”.( احمد بن حنبل ، رقم ۱۲۵۶۲)
    ”انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: حبشہ کے لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ناچ رہے تھے اور یہ گا رہے تھے : محمدصالح انسان ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ انھوں نے کہا: یہ کہہ رہے ہیں: محمد صالح انسان ہیں۔”

    لیکن اس حدیث سے ان کا رقص کےلیے استدلال لینا درست نہیں۔ کیونکہ یہ حدیث ایک واقعہ کا حصہ ہے۔ مکمل واقعہ جاننے کےبعد ہی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ جس رقص کا ذکر ہے وہ رقص اصل میں کیا تھا؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ

    كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا فَسَمِعْنَا لَغَطًا وَصَوْتَ صِبْيَانٍ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا حَبَشِيَّةٌ تَزْفِنُ وَالصِّبْيَانُ حَوْلَهَا، فَقَالَ: “يَا عَائِشَةُ تَعَالَيْ فَانْظُرِي”. فَجِئْتُ فَوَضَعْتُ لَحْيَيَّ عَلَى مَنْكِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَيْهَا مَا بَيْنَ المَنْكِبِ إِلَى رَأْسِهِ، فَقَالَ لِي: “أَمَا شَبِعْتِ، أَمَا شَبِعْتِ”. قَالَتْ: فَجَعَلْتُ أَقُولُ لَا لِأَنْظُرَ مَنْزِلَتِي عِنْدَهُ إِذْ طَلَعَ عُمَرُ، قَالَتْ: فَارْفَضَّ النَّاسُ عَنْهَا: قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “إِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَى شَيَاطِينِ الإِنْسِ وَالجِنِّ قَدْ فَرُّوا مِنْ عُمَرَ” قَالَتْ: فَرَجَعْتُ۔(المسند الموضوعی الجامع للکتب العشرۃ:16/258)
    ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم تشریف فرما تھے کہ ہم نے شور اور بچوں کی آوازیں سنیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کھڑے ہوئے تو دیکھا کہ حبشہ کے لوگ رقص کر رہے ہیں اور بچے ان کے گرد کھڑے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے عائشہ ادھر آؤ اور دیکھو! تو میں نے وہاں جا کر اپنی ٹھوڑی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے کندھے پر رکھ دی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے کندھے اور سر کے درمیان میں سے ان لوگوں کی طرف دیکھنے لگی تو (کچھ دیر بعد ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا کیا تمہارا جی نہیں بھرا ؟کیا تمہارا جی نہیں بھرا ؟ تو میں کہتی رہی، جی نہیں، تا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاس اپنی قدر ومنزلت دیکھوں تو اتنے میں عمر (رضی اللہ عنہ) ظاہر ہوئے تو لوگ حبشیوں کے پاس سے دائیں بائیں ہو گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں انسانوں اور جنوں کے شیطانوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ عُمر سے بھاگ رہے ہیں ( حبشیوں کا کھیل چونکہ ختم ہو چکا تھا اس لیے ) میں بھی واپس ہو گئی ۔

    یہی واقعہ سنن ترمذی اور سنن نسائی میں بھی بیان ہوا ہے۔ اس میں سمجھنے والی بات ’’ یزفن‘‘ یا “”‘ دیگر روایات میں’’ یزفنون‘‘ کے لفظ کو سمجھنا ہے جس کا ترجمہ عام طور پر اردو میں ’’رقص‘‘ میں کیا جاتا ہے ، لیکن یہ ’’رقص ‘‘ کیا وہی حرکات ہیں جنہیں اردو داں طبقہ ’’ رقص‘‘ کے طور پر جانتا ہے ؟ بالکل نہیں۔ بلکہ اس کو مزید سمجھنے کےلیے صحیح البخاری، کتاب المناقب کی روایت ہے، جس میں یہ الفاظ ہیں کہ

    ’’ یلعبون فی المسجد ‘‘
    مسجد میں کھیل رہے تھے۔

    اب یہ معلوم کرنا ہے کہ اس کھیل کی کیفیت اور اصلیت کیا تھی تو ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے صحیح البخاری، کتاب الصلاۃ، ابواب المساجد میں اور صحیح مسلم، کتاب صلاۃالعیدین میں بیان فرمائی کہ

    ’’ والحبشۃ یلعبون بحرابھم‘‘
    اور حبشہ کے لوگ اپنے ہتھیاروں کے ساتھ کھیل رہے تھے ۔

    ان دو روایات کے ذریعے ’’یزفنون‘‘ جسے ’’رقص‘‘ کہا گیا، او رجس سے رقص کے جواز کی طرف میلان کیا گیا، اس ’’رقص‘‘ کی حقیقت اور کیفیت بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ جو لوگ رقص کےلیے اس دلیل کو پیش کرتے ہیں، وہ دیگر روایات سے اس لفظ کے معنیٰ ومفہوم کو صحیح نہیں سمجھے۔ جس بناء پر رقص کے جواز کی طرف ان کا رجحان غلطی پر ہے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں