جواب ( 1 )

  1. جواب:

    جی بہن صحیح احادیث میں مکمل کلمہ موجود ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں

    عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَمَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ عَصَمَ مِنِّي نَفْسَهُ وَمَالَهُ إِلَّا بِحَقِّهِ وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ “. فَأَنْزَلَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ وَذَكَرَ قَوْمًا اسْتَكْبَرُوا، فَقَالَ: إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ (الصافات: 35) ، وَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا “(الفتح: 26) ، وَهِيَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ اسْتَكْبَرَ عَنْهَا الْمُشْرِكُونَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ، فَكَاتَبَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَضِيَّةِ الْمُدَّةِ ۔(الإيمان لابن منده199 , الأسماء والصفات للبيهقي 195)
    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل فرمایا توتکبرکرنے والی ایک قوم کا ذکرکیا: یقینًاجب انہیں لاالہ الااللہ کہا جاتاہے توتکبرکرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب کفرکرنے والوں نے اپنے دلوں میں جاہلیت والی ضد رکھی تواللہ نے اپنا سکون واطمینان اپنے رسول اورمومنوں پراتارا اوران کے لئے ’’کلمة التقوی‘‘ کولازم قراردیا اوراس کے زیادہ مستحق اوراہل تھے اوروہ ’’کلمة التقوی‘‘ لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ ہے۔ حدیبیہ والے دن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدت (مقرر کر نے) والے فیصلے میں مشرکین سے معاہدہ کیا تھا تو مشرکین نے اس کلمہ سے تکبرکیا تھا۔

    نوٹ:

    بہن! مجھےیقین ہے کہ یہ سوال یا تو آپ سے کیا گیا ہوگا، یا پھر آپ نے کہیں سے پڑھا یا سنا ہوگا۔ اصل میں اس طرح کے سوالات وہی لوگ اٹھاتے ہیں، جن کے اپنے ایمان کمزور اور جن کی یہ سوچ اورفکر ہوتی ہے کہ قرآن وحدیث میں ہمارے تمام ترمسائل کا حل موجود نہیں ہے۔ اگرقرآن وحدیث میں حل موجود ہے تو پھرکسی ایک صحیح حدیث میں مکمل کلمہ ہی دکھا دو،

    اسی طرح کا ایک سوال بحث ومباحثہ میں مجھ سے صاحب نے کیا کہ اگرآپ لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن وحدیث ہی ہمارے لیے کافی ہیں تو آپ مکمل نماز قرآن وحدیث سے ثابت کردیں، جس کے جواب میں مَیں نے کہا کہ اس کے جواب سے پہلے آپ مجھے یہ لکھ دیں کہ مکمل نمازقرآن وحدیث سے ثابت نہیں ہے۔ تو اس کے بعد پھر میں ثابت کرونگا۔ لیکن صاحب اس بات کو لکھنے کےلیے تیار نہیں تھے۔ کیونکہ وہ خود جانتے تھے کہ میرا یہ سوال غلط ہے۔ اس طرح کے سوالات عوام کو دھوکے میں رکھنے کےلیے اٹھائے جاتے ہیں۔

    اور پھراس طرح کے بےتکے سوالات کرکے یہ کہتے ہیں کہ اگرہمیں اپنے سب مسائل کے حل کی تلاش ہے تو ہمیں کسی امام کی تقلید کرنا ہوگی۔حالانکہ اگراسی سوچ وفکرپرغور کیا جائے تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ دین نامکمل تھا، جسے آئمہ کرام نے آکر مکمل کیا۔(نعوذباللہ)۔

    لہٰذا آپ یہ جان لیں کہ قرآن وحدیث میں ہی ہمارے قیامت تک آنے والے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ بس غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں