کیا ناخن بڑھانا گناہ ہے

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ کیا ناخن بڑھانا گنا ہے؟اگر گناہ ہے تو پھر کتنے دن بعد لازمی ناخن کاٹے جائیں

733 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! ہمارا دین اسلام دین فطرت ہے کیونکہ یہ انسان کے فطرتی تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ مونچھیں کترانے، داڑھی بڑھانے، مسواک کرنے، وضو کرتے وقت ناک میں پانی چڑھانے، کلی کرنے، ختنے کرانے، ناخن تراشنے، زیرناف بال مونڈنے، بغلوں کی صفائی کرنے، استنجاء کرنے اور بدن کی مختلف ہڈیوں کے جوڑ دھونے کو اسلام نے امور فطرت میں شمار کیا ہے۔ گویا ان کی صفائی کا اہتمام انسانی طبع کا تقاضا ہے اور ان میں سستی کا مظاہرہ گندگی پھیلانے کا باعث ہے۔

    ان امور فطرت مین ناخن کاٹنا بھی شامل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ناخن نجاست اور میل کچیل کو جمع رکھنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں، اس لئے انہیں تراشنے اور صاف رکھنے کا حکم ہے۔ ناخن بڑھے ہوئے ہوں تو دیکھنے میں بھی برے لگتے ہیں۔ لمبے ناخن رکھنا، انسانی فطرت سے بغاوت اور انبیاء علیہم السلام کی سنت سے روگردانی کرنا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی انسان غیر ضروری بالوں کی صفائی کرنا چھوڑ دے، ہاتھ منہ بھی نہ دھوئے۔ ناخن بڑھانا انسانی شیوہ نہیں بلکہ حیوانی خصلت ہے، اس لئے شریعت نے اس کی اجازت نہیں دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم گرامی ہے:

    ’’پانچ چیزیں فطری ہیں: مونچھوں کا کاٹنا، بغلوں کے بال اکھیڑنا، ناخن تراشنا، زیرناف بال صاف کرنا اور ختنہ کرنا۔‘‘ (نسائی، الطہارۃ: 10)

    اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین شکل وصورت میں پیدا کیا ہے، حیوانات کے ساتھ اس کی مشابہت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ بڑے ناخن کسی کو یا اپنے آپ کو زخمی کر سکتے ہیں۔ اس لئے فطرت سلیمہ کا تقاضا ہے کہ انہیں بڑھایا نہ جائے بلکہ زائد ناخن تراش دئیے جائیں۔ شریعت نے ان فطری امور کےلیے زیادہ سے زیادہ چالیس دن مقرر فرمائے ہیں۔

    چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان فطری امور کی صفائی کےلیے یہ مدت مقرر کی ہے کہ ہم چالیس دن سے زیادہ نہ گزرنے دیں۔(مسلم، الطہارۃ: 258)

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں