غسل جنابت کا طریقہ

سوال

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

سوال!!

بہن نے غسل جنابت کا طریقہ پوچھا ہے اورپوچھا ہے کہ اگر ویسے ہی غسل کر لیا جائے تو گناہ تو نہیں ؟

380 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب!!

    ذيل ميں ہم غسل كا مكمل اور كفائت كرنے والے دونوں طريقے بيان كرتے ہيں:
    كفائت كرنے والا طريقہ:
    انسان كے ليے صرف واجبات پر عمل كرنا ہى كافى ہے اس ميں مستحب اور مسنون اشياء كى ضرورت نہيں، چنانچہ وہ طہارت كى نيت سے كسى بھى طريقہ پر اپنے سارے جسم پر پانى بہا لے، چاہے شاور كے نيچے كھڑا ہو كر يا پھر سمند اور دريا ميں يا پھر سوئمنگ پول ميں داخل ہو كر كلى اور ناك ميں پانى ڈال كر سارے جسم پر پانى بہا لے تو اس طرح اس كا غسل ہو جائيگا۔
    غسل كا كامل طريقہ:
    وہ اس طرح غسل كرے جس طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے غسل كيا اس ميں سارے مسنون عمل كرے۔
    شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے غسل كے طريقہ كے متعلق دريافت كيا گيا تو شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
    غسل كے دو طريقے ہيں:
    پہلا طريقہ:
    يہ واجب طريقہ ہے:
    وہ يہ ہے كہ كلى اور ناك ميں پانى چڑھا كر اپنے پورے جسم پر پانى بہايا جائے، سارے بدن پر كسى بھى طريقہ سے پانى بہايا جائے تو اس حدث اكبر سے غسل ہو جائيگا اور طہارت مكمل ہو جائيگى، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
    ﴿ اور اگر تم جنبى ہو تو غسل كرو ﴾المآئدۃ ( 6 ).
    دوسرا طريقہ:
    كامل طريقہ يہ ہے كہ:
    انسان اس طرح غسل كرے جس طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے غسل كيا تھا، چنانچہ جب غسل جنابت كرنا چاہے تو وہ اپنے دونوں ہاتھ دھو كر اپنى شرمگاہ دھوئے اور جہاں نجاست لگى ہے اس جگہ كو دھوئے، پھر مكمل وضوء كرے، پھر پانى كے ساتھ تين بار اپنا سر دھوئے، اور پھر اپنا سارا بدن دھوئے، يہ غسل كا مكمل اور كامل طريقہ ہے.
    اگر خالی جسم پہ پانی بہا لیا جائے ناک میں پانی نہ ڈالا جائے یا کلی نہ کی جائے تو غسل نہ ہوگا اور نہ پاکی حاصل ہوگی ۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں