پرفیوم کا استعمال

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ ہم پرفیوم استعمال کرسکتے ہیں؟

573 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:
    سب سے پہلے تو یہ جان لیجیے کہ عورت کے لئے اس صورت میں خوشبو استعمال کرنا جائز ہے جب وہ عورتوں ہی کے حلقہ میں جارہی ہواورراستہ میں مردوں کے پاس سے اس کا گزر نہ ہو اوراگربازاروں میں جانا ہو جہاں مرد بھی ہوتے ہیں تو پھر خوشبوکے ساتھ گھرسےنکلنا جائز نہیں۔ اسی طرح عورت جب گھر میں ہو، تو اپنے خاوند کےلیے خوشبو وغیرہ کا استعمال کرسکتی ہے۔

    دوسری بات پرفیوم کے استعمال کے حوالے سے ہے تو یہ جان لینا چاہیے کہ مشہور یہی ہے کہ پرفیوم کی تیاری میں الکحل استعمال کیا جاتا ہے۔ اور الکحل کیا واقعی شراب (خمر) ہے یا اس کا کوئی متبادل ہے؟۔ اگر پرفیوم میں انگوریا کھجور سے کشید کیا گیا الکحل شامل ہے تو اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور اگر گنے، سبزیوں وغیرہ سے بنا الکحل ملایا گیا ہے تو اس کا استعمال جائز ہے۔عام طور یہی دوسری صورت ہوتی ہے کیونکہ پہلے پر مصارف (اخراجات) بہت آتے ہیں۔

    جب مفتی عبدالستار حفظہ اللہ سے یہ سوال کیا گیا تو آپ نے جواب دیا کہ

    ’’ الکحل کےمتعلق یہ بات قابل تحقیق ہے کہ یہ شراب (خمر) ہے یا اس کا متبادل ، ہمارے نزدیک یہ خمر نہیں بلکہ اس کا متبادل ہے۔ ضروری نہیں کہ اصل چیز کےمتعلق جواحکام ہوتےہیں۔ متبادل کےبھی وہی ہوں۔ ہمارے اساتذہ جو محتاط محقیقین سے تھے، ان کا کہتا تھا کہ الکحل بعض اجزاء سے تیار ہوتی ہے اور اس کے بعض اجزاء حلال ہیں۔ جیسا کہ انگور وغیرہ ہیں، اگر اسےشراب جیسا ہی قرار دیا جائے توبھی اس کی نجاست کےمتعلق اختلاف ہے کہ وہ حسی ہے یا معنوی؟ علامہ شوکانی رحمہ اللہ وغیرہ کی رائے کہ شراب کی نجاست حسی نہیں بلکہ معنوی ہے ، تاہم راجح بات یہی ہے کہ اس کی نجاست حسی ہے تا کہ لوگوں کی اس سےنفرت برقرار رہے۔ اس کے علاوہ بعض احادیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے

    جو لوگ الکحل کو ادویات یا خوشبو میں ڈالتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اسے صرف اس لئے استعمال کیا جاتا ہے تا کہ دوا اور خوشبو کا اثر برقرار رہے۔ جب اس دواکو استعمال کیا جاتا ہے جس میں الکحل ہوتی ہے تو الکحل اڑجاتی ہے اور دوا کا اثرباقی رہتا ہے، اسی طرح جب پرفیوم وغیرہ استعمال کی جاتی ہے تو اس سے الکحل اڑجاتی ہے۔ صرف خوشبو باقی رہتی ہے اگر یہ بات درست ہے تو پرفیوم استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتاوی اصحاب الحدیث)۔‘‘

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں