کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ مبارک تھا

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کا سایہ مبارک تھا؟ کیونکہ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ سایہ نہیں تھا۔ اس بارے وضاحت فرمائیں

390 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہیں تھا؟ یہ اتنا بڑا جھوٹ ہے کہ جس کی کوئی مثال نہیں۔ اس سے ثابت یہی کرنا مقصود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف دیکھنے میں انسان دکھائی دیتے تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خلقت مٹی سے نہیں تھی، تب ہی تو سایہ نہیں تھا؟ حالانکہ ان کو یہ تک پتہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ جو خالق کائنات ہے اور خود نور ہے جس کے نور کی کوئی مثال نہیں ہے اس کا تو سایہ احادیث سے ثابت ہے۔ اسی طرح پوری مخلوق فرشتے، جن وانس سب کے سائے کی بات ہے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ کیوں نہیں؟

    باقی انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سایہ سے محض اپنے ظن کی بنا پر بری کردیا ہے، جو کہ نقلاً وعقلاً کسی بھی طور درست نہیں۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سایہ کا ثبوت کئی احادیث صحیحہ میں ہے اور اس کے خلاف کچھ بھی ثابت نہیں ہے۔ طبقات ابن سعد (8 /127،126) اور مسند احمد (6 /261،131،132) میں امام مسلم کی شرط پر شمیسہ رحمہاللہ سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:

    ’’فينما أنا يوماً في منصف النهار اذا أنا بظل رسول الله مقبلاً ‘‘
    دوپہر کا وقت تھا کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ آرہا ہے۔

    اسی طرح کی ایک طویل روایت سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے جس کا ایک حصہ کچھ یوں ہے:

    ’’فلما كان شهر ربيع الاول دخل عليها فرأت ظله……الخ‘‘ (مسند احمد:6 /338)
    جب ربيع الاول كا مہینہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ دیکھا۔

    اسی طرح صحیح ابن خزیمہ (2 /51 /892) میں بھی صحیح سند کے ساتھ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

    ’’حتي رأيت ظلي وظلكم‘‘
    یہاں تک کہ میں نے اپنا اور تمہار سایہ دیکھا۔

    لہٰذا کسی صحیح یا حسن روایت سے یہ قطعاً ثابت نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہیں تھا۔ اور جو سایہ نہ ہونے کی بات کرتے ہیں، دلائل کے مقابلے میں ان کی بات باطل اور جھوٹی ہے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں