ستائیسویں رجب کو عبادت کرنا

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ 27 ویں رجب المرجب کی رات کو جو عبادات کی جاتی ہیں، شرعی حوالے سے اس کی کیا حیثیت ہے؟

449 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! سال کے خاص مہینوں میں ایک خاص مہینہ ”رجب المرجب “ بھی ہے۔ اس مہینے کی سب سے پہلی خصوصیت اس مہینے کا ”اشھر حرم “میں سے ہونا ہے اس مہنیہ میں اسلام سے قبل ہی سے بہت سی رسومات اور منکرات رائج تھیں، جن کو اسلام نے یکسر ختم کرکے رکھ دیا، ان میں سے ایک رجب کے مہینے میں قربانی کا اہتمام ہے، جس کو قرآن پاک کی اصطلاح میں ”عتیرہ “ کے نام سے واضح کیا گیا ہے، اسی مہینے میں زکوۃ کی ادائیگی اور پھر موجودہ زمانے میں ان کے علاوہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی کہانی ،22 رجب کے کونڈوں کی رسم، 27 رجب کی شب ”جشنِ شب معراج“ اور اگلے دن کا روزہ جس کو”ہزاری روزہ “کہا جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ سب ایسی رسومات و بدعات ہیں جن کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے ۔

    دیگر بدعت کے علاوہ 27 رجب کی رات جاگ کر عبادت کرنے اوردن کو روزہ رکھنے کو بھی بہت اہمیت دی جاتی ہے اور اس نسبت واقعہ معراج سے کی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ واقعہ معراج کے ظہور کی حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس واقعہ کے رونما ہونے کی تاریخ کے بارے میں کم بیش 20 سے زائد اقوال ہیں۔ جیسا کہ بعض کے نزدیک یہ واقعہ رمضان میں ہوا۔ بعض کے نزدیک ربیع الاول میں، بعض نے ہجرت کے بعد، بعض نے ہحجرت سے پہلے کہا۔ غرض یہ کہ اس واقعہ کی صحیح تاریخ ، صحیح مہینہ کسی صحیح حدیث سے یقینی طور پر ثابت نہیں ۔ لہذا 27 رجب کو شب معراج سمجھنا بلکل غلط ہے۔ اور اگر بالفرض یہ ثابت ہو بھی جائے کہ 27 رجب یہ شب معراج ہے تب بھی اس رات چراغاں کرنا، نئے کپڑے بنانا، حلوہ بنانا نا جائز اور حرام ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں واقعہ معراج کے بعد اس رات کسی خصوصی عبادت کا نہ تو اہتمام کیا اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول یا عمل 27 رجب کی شب خصوصی عبادت کےبارے میں ہے۔ نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین، نہ امہات المومنین رضوان اللہ علیہن اجمعین، نہ عشرہ مبشرہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس رات خاص کر جاگ کر عبادت کی ۔ نئے کپڑے بنائے، چراغاں کیے، حلوے بنائے، قبرستان گئے اور نہ دن کو روزہ رکھا۔ لہذا ایسے تمام طریقوں اور کاموں سے بچنے کی ضرورت ہے جو دین کے نام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایجاد کر لیے گئے ہوں۔

    شیخ محمد صالح العثمین رحمۃاللہ فرماتے ہیں۔

    27 رجب یا 15 شعبان کی رات کے دن خوشی و مسرت کے اظہار کی کوئی دلیل نہیں ہے، بلکہ اس طرح کے کاموں کی مخالفت کی دلیل موجود ہے۔ لہذا جب اس طرح کی محفلوں میں شرکت کی دعوت دی جائے تو ان میں کسی مسلمان کو شرکت نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔

    وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ, فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ۔(ابوداؤد:4607)
    دین میں نئے امور نکالنے سے بچتے رہو کیونکہ ہرنئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔

    قابل غور بات یہ ہے کہ واقعہ معراج کو نقل کرنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کم وبیش تعداد جو علامہ قسطلانی رحمہ اللہ نے (المواہب اللدنیہ :2/345،میں) شمار کی، وہ 26 ہے۔ اسی طرح علامہ زرقانی رحمہ اللہ نے اس کتاب کی شرح میں ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ناموں میں اضافہ کرتے ہوئے پینتالیس کی تعداد اور ان کے نام ذکر کیے ہیں۔ (شرح العلامة الزرقانی : 8/76،دارالکتب العلمیہ)

    اب قابل غور بات یہ ہے کہ اس قصے کی تفصیل بیان کرنے والے اصحاب رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اتنی بڑی تعداد ہے اور اس کے باوجود جس رات میں یہ واقعہ پیش آیا اس رات کی حتمی تاریخ کسی نے بھی نقل نہیں کی ، آخر کیوں؟ کتب سیر میں غور کرنے کے بعد سوائے اس کے کوئی اور بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اگرچہ اس رات میں اتنا بڑا واقعہ پیش آیا لیکن اس کی بنا پر اس رات کو کسی مخصوص عبادت کے لیے متعین کرنا نہ تو کسی کو سُوجھا اور نہ ہی زبان نبوت سے اس بارے میں کوئی حکم صادر ہوا اور نہ ہی اس رات کی اس طرح سے تعظیم کسی صحابی رسول کے ذہن میں پیدا ہوئی، لیکن اس کے باوجود یہ سوال پھر بھی باقی رہتا ہے کہ اگرچہ اس سے کوئی حکم شرعی وابستہ نہیں تھا، تاہم بمقتضائے محبت ہی اس طرف توجہ کی جاتی، جب حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے خدوخال اور نقش ونگار کو بھی بمقتضائے محبت ضبط کرنے کا اہتمام کیا گیا تو آخر اس شب سے اس قدر بے اعتنائی کی کیا وجہ؟ تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس شب میں خرافات و بدعات کی بھر مار کا شدید خطرہ تھا، حضور صلی الله علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سدباب کی غرض سے اس کو مبہم رکھنا ہی ضروری سمجھا۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں