زکوۃ پر بہن کا سوال او راس کا جواب

سوال

سوال:
Mene apne jahez.ar bari ka.zewar baich k 6-lakh 50000 ki raqamm apne behnoi k pas invest ki unka showroom har wo profit loss.k. basis.pe.mjhe her maah raqam dete thhe taqreban.13′ se 20 hazar takk.aik saal pora ye raqam.unk pas ase hi rahi ar aik saal 2 mahinay baad mene.3.5 lakh niklwwa k gari le li ar baqya 3 lakh unk pas. Invest rahe pora saal .ab is.pe.zakat hoge ??? Kitne.hoge. plzzz rehnumai krden

Dosra ye k mere husbannd aik travel agency chala rhe hen 50. 50 paartnership with a.hindu partner.unk asset me computer ac ar furniture he dukan ka baqi jo umrah lgwatay hen ya ticket bechtay hen usme se jo profit ata he wo lisence lene bank. Gaurantee ar ghar k khaarch me istemal hjata he jo cashh he wo circle.me he deposit amount kahin b nhi. He tu ispe zakat hoge ar agr hoge tu kis hisaab se zror zror jitna.jalldi possible ho btaye ga thannx

231 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن!جو رقم آپ نے 6 لاکھ 50 ہزار انویسٹ کی، اس پر زکوۃ نہیں، کیونکہ یہ رقم آپ کی آلات تجارت کی قسم میں سے ہے۔اور جو مال آلات تجارت میں سے ہو، اس پرزکوۃ نہیں ہوتی۔جیسا کہ حدیث میں ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    لیس علی العوامل شيء۔ (ابوداود:۱۵۷۲)
    پیداوار کا ذریعہ بننے والی چیزں پر زکوٰۃ نہیں ہے۔
    لہٰذا آلات تجارت پر زکوۃ نہیں ہوتی، بلکہ سامان تجارت پر زکوۃ ہوتی ہے۔جیسا کہ حدیث میں ہے
    فَإِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ ﷺ کَانَ يَأْمُرُنَا أَنْ نُخْرِجَ الصَّدَقَةَ مِنَ الَّذِیْ نُعِدُّ لِلْبَيْعِ۔(ابوداؤد كتاب الزكاة )
    بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے تھے کہ جن اشیاء کو ہم بیچنے کے لیے تیار کریں ان میں سے زکوٰۃ نکالیں۔
    کیونکہ سامان تجارت اور آلات تجارت میں فرق ہے۔ جوچیزیں تجارت کےلیے (For Sale) ہوں، ان پرہر سال چالیسواں حصہ بطور زکوٰۃ نکالا جائے گا۔اسی طرح اس مال تجارت سے حاصل ہونے والی آمدنی پراگر ایک سال کا عرصہ گزر جائے اور وہ نصاب کے برابر ہو تو پھر اس کی زکوٰۃ دی جائے گی۔ لہٰذا 6 لاکھ 50 ہزار کے عوض جو آپ نے مال تجارت خریدا، اور اس پر جو منافع آتا ہے، اس پر زکوۃ دینا ہوگی،اگر نصاب کو پہنچتا ہے تو(یعنی اس رقم سے ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے 52 تولے چاندی خریدی جاسکتی ہے) تو اس پر بھی چالیسواں حصہ(اڑھائی فیصد) زکوۃ آپ کو دینا ہوگی۔
    آپ نے اس میں سے ساڑھے تین لاکھ واپس لے کر گاڑی لے لی۔جو کہ اب آپ کے استعمال میں ہے تو اس بارے عرض ہے کہ گھریلو استعمال کی چیزوں پر زکوۃ لاگو نہیں ہوتی، صرف سونے اور چاندی کی چیزوں کے علاوہ، خواہ کتنی ہی قیمتی چیز ہو اس پر زکوۃ نہیں ہوتی، مثلا لاکھوں روپے کی گاڑی اگر گھریلو استعمال کے لیے ہوں تو ان پر زکوۃ نہیں ہو گی۔ہاں اگر ان کو رینٹ پر دیا جائے تو اس کی آمدنی پر زکوۃ ہو گی۔لہٰذا گاڑی جو آپ کے استعمال میں ہے، اس پر زکوۃ دینا فرض نہیں ہے۔
    اب جو تین لاکھ آپ کے بہنوئی کے پاس انویسٹ ہے، وہ چونکہ سامان تجارت ہے،سو ان پیسوں پر تو زکوۃ نہیں۔ لیکن اس تین لاکھ کا جو مال تجارت ہے، جس سے آپ تجارت کرتی ہیں اور اس سے آمدنی آتی ہے تو آمدنی اور اس مال تجارت کو ملاکر اگر وہ نصاب کو پہنچتا ہے اور سال گزر گیا ہے تو اس سے زکوۃ نکالنا واجب ہے۔

    باقی جو آپ نے اپنے خاوند کے حوالے سے سوال کیا، تو جتنی رقم ہوتی ہے چاہے وہ بینک میں ہو، یا جہاں بھی۔اگر وہ نصاب کو پہنچتی ہے تو اس پر بھی زکوۃ دینا ہوگی۔یہ ضروری نہیں کہ رقم آپ کے پاس ہو تو اس پر زکوۃ ہوگی، بلکہ رقم کے جب آپ مالک بن گئے، چاہے وہ آپ کے پاس ہو یا نہ ہو تو آپ کو زکوۃ دینا ہوتی ہے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں