آگ سے داغ لگوا کر علاج کرنا

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ آگ سے داغ لگوانا کیسا ہے؟ کیا طریقہ کار ہوتا ہے؟ اور کیا یہ علاج آج کل بھی ہوتا ہے یا نہیں؟

1397 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! علاج کی غرض سے انسانی جسم کو آگ کے ساتھ داغا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے

    حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُو كُرَيْبٍ قَالَ يَحْيَى وَاللَّفْظُ لَهُ أَخْبَرَنَا و قَالَ الْآخَرَانِ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ جَابِرٍ قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ طَبِيبًا فَقَطَعَ مِنْهُ عِرْقًا ثُمَّ كَوَاهُ عَلَيْهِ۔ (مسلم:5745)
    ابومعاویہ نے اعمش سے، انھوں نے ابو سفیان سے، انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جب) حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ (کو جنگ خندق کے موقع پر ہاتھ کی بڑی رگ پر زخم لگاتو ان) کے پاس ا یک طبیب بھیجا، اس نے ان کی(زخمی) رگ (کی خراب ہوجانے والی جگہ) کاٹی، پھر اس پرداغ لگایا(تاکہ خون رک جائے۔)

    اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے۔

    حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ ح و حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى أَخْبَرَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ رُمِيَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ فِي أَكْحَلِهِ قَالَ فَحَسَمَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ بِمِشْقَصٍ ثُمَّ وَرِمَتْ فَحَسَمَهُ الثَّانِيَةَ۔ (مسلم:5748)
    ابو زبیر نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا:حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بازو کی بڑی رگ میں تیر لگا، کہا: تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سےتیر کے پھل کے ساتھ اس(جگہ) کو داغ لگایا، ان کا ہاتھ دوبارہ سوج گیا تو آپ نے دوبارہ اس پر داغ لگایا۔

    بخاری مسلم کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

    الشفاء في ثلاثة : شربة عسل ، وشرطة محجم ، وكية نار ، وأنهى أمتي عن الكي۔ (بخاری ومسلم)
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شفاء تین چیزوں میں ہے، شہد پینا، پچھنے (حجامہ) لگوانا اور آگ سے داغنا اور میں اپنی امت کو داغنے سے منع کرتا ہوں۔

    لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اوراس بات کی خبردینا کہ یہ عمل شفاء کے اسباب میں سے ہے، ضرورت پڑنے پر اس سے علاج کرنے کے جواز کو ثابت کرتا ہے، رہی بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی امت کو داغنے سے منع کرنے کی تو اسے بلا ضرورت مریض کو داغنے پرمحمول کیا جائے گا، جبکہ اس کے علاوہ دوسرے ذرائع سے علاج ممکن ہو، یا اس کے ذريعہ علاج کو افضل واولیٰ کے خلاف پر محمول کیا جائےگا۔ کیونکہ اس میں تکلیف زیادہ ہوتی ہے۔ اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بارے میں خبردی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم داغے جانے کو پسند نہیں فرماتے ہيں، اور ان لوگوں کی تعریف کی جوداغنا پسند نہیں کرتے، کیونکہ اس میں اللہ پر کمال توکل پايا جاتا ہے۔ اور مناسب یہ ہے کہ اس کام کی انجام دہی داغنے میں ماہر شخص انجام دے، تاکہ جسم کے مناسب جگہ پرداغ کر علاج کیا جاسکے، اور مریض کے حالت کا خیال رکھتے ہوئے علاج ہو۔

    داغنے کا طریقہ یہ ہے کہ جسم کے متاثرہ حصہ کو آگ سے گرم کسی چیز کے ساتھ داغ دیا جائے، جیسا کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں داغ کر علاج کرنے کا طریقہ بھی ملتا ہے۔ باقی آج کل یہ علاج کیا نہیں جاتا، مگر اس طرح کے علاج کی جدید شکلیں لیزر یا آپریشن کرکے علاج کرنا ہے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں