بالوں کا جوڑا باندھ کر نماز کیوں نہیں ہوتی؟

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:
بہن نے سوال کیا ہے کہ بالوں کا جوڑا باندھ کر نماز کیوں نہیں ہوتی؟

1783 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! سب سے پہلی وجہ یہ کہ، جیسا کہ حدیث ہے

    حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلَى سَبْعَةِ أَعْظُمٍ، وَلَا أَكُفَّ ثَوْبًا وَلَا شَعْرًا»۔(مسلم:1096)
    شعبہ نے عمرو بن دینار سے، انہوں نے طاؤس اور انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی، انہوں نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا کہ میں سات ہڈیوں (والے اعضاء) پر سجدہ کروں اور یہ کہ میں (نماز میں) نہ کپڑا اڑسوں اور نہ بال۔

    جب کوئی اس حکم کی مخالفت کرے گا، تو اس کی نماز نہیں ہوگی۔

    دوسری وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ آپ بالوں کا جوڑا بناکر نماز نہ پڑھو، جیسا کہ حدیث ہے

    حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ عَنْ شُعْبَةَ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ أَخْبَرَنِي مُخَوَّلُ بْنُ رَاشِدٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَعْدٍ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ يَقُولُ رَأَيْتُ أَبَا رَافِعٍ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ وَهُوَ يُصَلِّي وَقَدْ عَقَصَ شَعْرَهُ فَأَطْلَقَهُ أَوْ نَهَى عَنْهُ وَقَالَ
    نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ وَهُوَ عَاقِصٌ شَعَرَهُ۔(ابن ماجہ:1042)
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام سیدنا ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو بالوں کا جوڑا باندھ کر نماز پڑھتے دیکھا تو ان کے بال کھول دیے یا اس طرح کرنے سے منع فرمایا، اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کوئی مرد بالوں کا جوڑا باندھ کر نماز پڑھے۔

    اب جو کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کرے گا، تو اس کی نمازکیسے درست ہوگی؟

    تیسری وجہ یہ ہے کہ جب اس طرح بالوں کا جوڑا بنایا جاتا ہے، تو وہ شیطان کے بیٹھنے کا مقام بن جاتا ہے، جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے

    حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ حَدَّثَنِي عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ رَأَى أَبَا رَافِعٍ مَوْلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ عَلَيْهِمَا السَّلَام وَهُوَ يُصَلِّي قَائِمًا وَقَدْ غَرَزَ ضَفْرَهُ فِي قَفَاهُ فَحَلَّهَا أَبُو رَافِعٍ فَالْتَفَتَ حَسَنٌ إِلَيْهِ مُغْضَبًا فَقَالَ أَبُو رَافِعٍ
    أَقْبِلْ عَلَى صَلَاتِكَ وَلَا تَغْضَبْ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ ذَلِكَ كِفْلُ الشَّيْطَانِ يَعْنِي مَقْعَدَ الشَّيْطَانِ يَعْنِي مَغْرَزَ ضَفْرِهِ۔(ابوداؤد:646)
    جناب سعید بن ابی سعید مقبری اپنے والد سے بیان کرتے ہیں ، انہوں نے سیدنا ابورافع ( مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کو دیکھا کہ وہ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے پاس سے گزرے جبکہ وہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے اور انہوں نے اپنی گدی میں اپنے بالوں کی چوٹی دھنسا رکھی تھی ۔ پس ابورافع نے ان کے بال کھول دیے ۔ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے غصے سے ان کی طرف دیکھا ، تو ابورافع نے کہا : اپنی نماز پڑھیے اور ناراض مت ہوئیے ۔ بلاشبہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جوڑے کا یہ مقام شیطان کی بیٹھک ہے ۔

    لہٰذا جب آپ بالوں کا جوڑا بناکر شیطان کے بیٹھنے کا مقام بنا دیں گے، تو کیسے نماز ہوگی؟

    چوتھی وجہ حدیث مبارکہ ہے کہ جوبھی بالوں کا جوڑا بنا کر نماز پڑھتا ہے، وہ ایسے نماز پڑھ رہا ہے جیسے اس نے نماز میں سترکھول رکھے ہوں

    عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ رَأَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْحَارِثِ يُصَلِّي وَ رَأْسُهُ مَعْقُوصٌ مِنْ وَرَائِهِ فَقَامَ فَجَعَلَ يَحُلُّهُ فَلَمَّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقَالَ مَا لَكَ وَ رَأْسِي ؟ فَقَالَ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ إِنَّمَا مَثَلُ هَذَا مَثَلُ الَّذِي يُصَلِّي وَ هُوَ مَكْتُوفٌ۔ (مسلم:349)
    سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا عبداللہ بن حارث کو دیکھا کہ وہ جوڑا باندھے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے ،تو سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما ان کے جوڑے کھولنے لگے۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا کہ تم نے میرا سر کیوں چھوا ؟ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے : جو شخص بالوں کا جوڑا باندھ کر نماز پڑھے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی ستر کھول کر نماز پڑھے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں