خانہ کعبہ کا ماڈل بنانا

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

کیا ہم خانہ کعبہ کا ماڈل بنا سکتے ہیں؟ مثلاً بی ایڈ کی ورکشاپ میں اگر خانہ کعبہ کا ٹاپک ہو تو اس کا ماڈل بنانا ضروری ہوتا ہے۔ تو کیا یہ درست ہے؟

824 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! آپ نے یہ نہیں بتایا کہ یہ ماڈل کیا بڑے پیپروغیرہ پہ کلرنگ یا پنسل وغیرہ سے بنانا ہوتا ہے، یا پھر لکڑی یا گتا، یا مٹی یا اینٹوں کا تیار ہوتا ہے؟ اور پھر اس ماڈل کا کیا کیا جاتا ہے؟۔ کیا بعد میں اسے ختم کردیا جاتا ہے؟ یا پھر رکھ لیا جاتا ہے؟ اگر تو یہ کسی پیپر وغیرہ پہ بنایا جاتا ہے تو پھر کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ ایسی ہے جیسے خانہ کعبہ کی آپ تصاویر لیتے ہیں۔ لیکن اگر لکڑی، گتا، مٹی یا اینٹیں استعمال کرکے تیار کیا جاتا ہے، اور پھر ورکشاپ کے کمپلیٹ ہونےکے بعد ختم کردیاجاتا ہے، تو بھی کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر یہ ماڈل بہت بڑا ہوتا ہے، باقاعدہ اس پر کافی خرچ اور ٹائم لگتا ہے۔ اور پھر تیار ہوجانے کے بعد مناسک وغیرہ کی عملی پریکٹس کروائی جاتی ہے، پھر اسے سیو کردیا جاتا ہے۔ تو اس حوالے سے ایک سوال کچھ اس طرح ہوا کہ

    سوال:
    کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ ہمارے اسکول میں جہاں پر دینیات پڑھاتے ہیں وہیں پر روزہ نماز کی عملی مشق بھی کرائی جاتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے اسکول کے طلبہ کو حج وعمرہ کی بھی عملی مشق کرائی جائے تاکہ طلبہ اور والدین میں حج کا شوق اور حج ادا کرنے کا مکمل طریقہ معلوم ہو۔ اسی لیے ہم اس پروگرام کو بڑے اعلی پیمانے پر کرنا چاہتے ہیں جس میں حج اور عمرہ کے تمام ارکان ہوں گے ۔ مثلاً احرام کا باندھنا، خانہ کعبہ کا طواف کرنا، صفا اورمروہ کی سعی کرنا، وغیرہ وغیرہ۔ اس کے لیے ہم لوگ جن جن چیزوں کی حج اورعمرہ کے لیے ضرورت ہوتی ہے ان تمام چیزوں کے ماڈل یعنی نمونے اورتصویریں تیار کریں گے۔ مثلا خانہ کعبہ کا تھرماکول کا ماڈل، گنبد خضرا کا ماڈل، اسی طرح تمام چیزوں کے ماڈل ہوں گے۔ شریعت میں اس کی کہاں تک گنجائش ہے؟

    جواب:
    مناسک حج سے متعلق چیزوں کے ماڈل بنانا جائز نہیں، اس میں مفاسد اور خرابیاں ہیں، حج کیمپوں میں بغیر ماڈل کے بھی پڑھے لکھے بھائیوں کو علمائے کرام سمجھاتے ہیں وہ بھی الحمد للہ اچھی طرح سمجھ لیتے ہیں ماڈل یا فلمی انداز پر سمجھنے سمجھانے میں لہو ولعب کی صورتیں پیدا ہوتی ہیں، بعض جگہ تصاویر اور فلم کا استعمال شروع کردیتے ہیں، آپ مقامی علمائے کرام اصحاب فتوی حضرات کی خدمت میں طلبا کرام کو سمجھانے کے لیے حاصل کریں، ان شاء اللہ بے حد فائدہ ہوگا۔ سیدھے سادہ طریقہ پر کہ جو قدیم سے سمجھنے سمجھانے کا چلا آتا ہے اسی میں خیر وبرکت ہے اس سے ہٹنے میں شرور وفتن کا دروازہ کھلتا ہے جس کے بند رہنے ہی میں خیر مضمر ہے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں