خاوند کا بیوی کو یا بیوی کا خاوند کو زکوۃ دینا

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال ہے کہ کیا خاوند اپنی بیوی کو، یا بیوی اپنے خاوند کو زکوۃ دے سکتی ہے؟

1211 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! زکوۃ کے حوالے سے ایک اصول یاد کرلیں کہ ’’ زکوۃ ہر اس مسلمان کو دی جاسکتی ہے جس کا خرچہ آپ کے ذمہ نہ ہو۔‘‘ لہٰذا خاوند کا خرچہ بیوی کے ذمہ نہیں ہوتا، اس لیے بیوی اپنے زکوۃ کے مستحق شوہر کو مال زکوۃ دے سکتی ہے، لیکن بیوی کا خرچ خاوند کے ذمہ ہوتا ہے۔ اس لیے خاوند بیوی کوزکوۃ نہیں دے سکتا۔

    اس مسئلہ میں بھی علماء کا اختلاف ہے کہ کیا بیوی خاوند کو زکوۃ دے سکتی ہے یا نہیں؟ اس میں علماء کے دو گروہ ہیں۔ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ بیوی بھی اپنے خاوند کو فرضی زکوۃ نہیں دے سکتی، بلکہ صرف نفلی صدقہ دے سکتی ہے، کیونکہ جب بیوی خاوند کو زکوۃ دے گی، تو خاوند نے پھر اسے بیوی پر ہی خرچ کرنا ہے۔ لہٰذا یہ اپنے آپ کو زکوۃ دینے کے مترادف ہوا۔ لیکن ان کے مقابلے میں بعض علماء کہتے ہیں کہ نہیں بیوی بھی اپنے خاوند کو زکوۃ دے سکتی ہے۔ اور دلیل کے طور پر یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ

    عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَضْحًى أَوْ فِطْرٍ إِلَى الْمُصَلَّى ثُمَّ انْصَرَفَ فَوَعَظَ النَّاسَ وَأَمَرَهُمْ بِالصَّدَقَةِ فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ تَصَدَّقُوا فَمَرَّ عَلَى النِّسَاءِ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ تَصَدَّقْنَ فَإِنِّي رَأَيْتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ فَقُلْنَ وَبِمَ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ مِنْ إِحْدَاكُنَّ يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ ثُمَّ انْصَرَفَ فَلَمَّا صَارَ إِلَى مَنْزِلِهِ جَاءَتْ زَيْنَبُ امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ تَسْتَأْذِنُ عَلَيْهِ فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ زَيْنَبُ فَقَالَ أَيُّ الزَّيَانِبِ فَقِيلَ امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ نَعَمْ ائْذَنُوا لَهَا فَأُذِنَ لَهَا قَالَتْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ إِنَّكَ أَمَرْتَ الْيَوْمَ بِالصَّدَقَةِ وَكَانَ عِنْدِي حُلِيٌّ لِي فَأَرَدْتُ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِهِ فَزَعَمَ ابْنُ مَسْعُودٍ أَنَّهُ وَوَلَدَهُ أَحَقُّ مَنْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَلَيْهِمْ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَقَ ابْنُ مَسْعُودٍ زَوْجُكِ وَوَلَدُكِ أَحَقُّ مَنْ تَصَدَّقْتِ بِهِ عَلَيْهِمْ۔(بخاری:1462)
    حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالضحیٰ یا عید الفطر میں عیدگاہ تشریف لے گئے۔ پھر ( نماز کے بعد ) لوگوں کو وعظ فرمایا اور صدقہ کا حکم دیا۔ فرمایا : لوگو! صدقہ دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی طرف گئے اور ان سے بھی یہی فرمایا کہ عورتو! صدقہ دو کہ میں نے جہنم میں بکثرت تم ہی کو دیکھا ہے۔ عورتوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! ایسا کیوں ہے؟ آپ نے فرمایا ‘ اس لیے کہ تم لعن وطعن زیادہ کرتی ہو اور اپنے شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔ میں نے تم سے زیادہ عقل اور دین کے اعتبار سے ناقص ایسی کوئی مخلوق نہیں دیکھی جو کار آزمودہ مرد کی عقل کو بھی اپنی مٹھی میںلے لیتی ہو۔ ہاں اے عورتو! پھر آپ واپس گھر پہنچے تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہ آئیں اور اجازت چاہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ یہ زینب آئی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کون سی زینب ( کیونکہ زینب نام کی بہت سی عورتیں تھیں ) کہا گیا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اچھا انہیں اجازت دے دو ‘ چنانچہ اجازت دے دی گئی۔ انہوں نے آکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آج آپ نے صدقہ کا حکم دیا تھا۔ اور میرے پاس بھی کچھ زیور ہے جسے میں صدقہ کرنا چاہتی تھی۔ لیکن ( میرے خاوند ) ابن مسعود رضی اللہ عنہ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اور ان کے لڑکے اس کے ان ( مسکینوں ) سے زیادہ مستحق ہیں جن پر میں صدقہ کروں گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے صحیح کہا۔ تمہارے شوہر اور تمہارے لڑکے اس صدقہ کے ان سے زیادہ مستحق ہیں جنہیں تم صدقہ کے طورپر دوگی۔ ( معلوم ہوا کہ اقارب اگر محتاج ہوں تو صدقہ کے اولین مستحق وہی ہیں )

    اس حدیث پر پہلے علماء کی طرف سے یہ اعتراض وارد کیا گیا ہے کہ اس حدیث میں یہ کہاں ہے کہ بیوی فرضی زکوۃ اپنے خاوند کو دے سکتی ہے؟ اس حدیث سے زیادہ سے زیادہ یہی ثابت ہوتا ہے کہ بیوی خاوند کو نفلی صدقہ دے سکتی ہے۔ اس اعتراض کا جواب دوسرے علماء کی طرف سے یہ دیا گیا ہے کہ حدیث میں لفظ ’’صدقہ‘‘ عام ہے، جو نفلی اور فرضی دونوں زکوۃ کا حامل ہے۔ لہٰذا اسے عام ہی رکھا جائے۔ اور عام حکم کو اس وقت تک خاص نہیں کیا جاسکتا ہوتا، جب تک اسے خاص کرنے کی دلیل نہ مل جائے۔ اور اس حوالے سے ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں کہ بیوی خاوند کو فرضی زکوۃ نہیں دے سکتی؟ لہٰذا اسی دلیل سے یہ ثابت ہوجائے گا کہ بیوی بھی اپنے خاوند کو فرضی زکوۃ دے سکتی ہے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں