خاوند کی گھر واپسی اور بیوی کو صفائی کا حکم

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ حدیث میں آتا ہے کہ ’’سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تو رات کے وقت گھر پہنچے تو اپنی اہلیہ کے پاس نہ جا حتى کہ وہ عورت جس کا خاوند غائب رہا ہے لوہا استعمال کر لے (یعنی زیر ناف بال مونڈ لے) اور پراگندہ بالوں والی کنگھا کر لے۔(بخاری:5246)‘‘ سوال یہ ہے کہ کتنی دیر تک خاوند گھر سے غائب رہے، تو عورت کےلیے ضروری بال مونڈنے کا حکم ہے؟یا ہر دفعہ جب خاوند باہر جائے اور گھر واپس آئے تو عورت کو ضروری بال صاف کرنا ہونگے۔؟

327 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! اسلام دین فطرت ہے، اور اسلام کے سارے احکام اور دی گئی ساری تعلیم فطرت اور مزاج کے عین مطابق ہے۔ اور اسلام اس چیز کو کسی بھی طور برداشت نہیں کرتا کہ کوئی ایسا فعل سرزد ہوکہ جس وجہ سے نفرت کی آگ دلوں میں پیدا ہوجائے۔ یہی حکمت خاوند اور بیوی کے درمیان صفائی میں بھی پوشیدہ ہے۔ جیسا کہ بیویوں کو حکم ہے کہ وہ اپنے خاوندوں کےلیے بناؤسنگھار کرکے رکھیں، ظاہر ہے جب خاوند گھر نہیں تو بیوی صفائی وغیرہ کے معاملے میں سستی کرسکتی ہے۔ اس لیے تو خاوند کو حکم ہے کہ وہ گھر لوٹنے کی پہلے اطلاع کرے۔ اور جب عورت کو اطلاع مل جائے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی صفائی ستھرائی کا بندوبست کرلے۔ اگرخاوند نے اطلاع نہیں کی یا اطلاع تو کی مگربیوی نے صفائی میں سستی دکھائی تو پھر خاوند کو چاہیے کہ جب تک بیوی صاف نہ ہوجائے تب تک پاس نہ جائے۔ کیونکہ اس سے ایک دوسرے کے دلوں میں نفرت پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔

    باقی اگرکوئی عورت اپنے آپ کو ہر وقت صاف ستھرا رکھتی ہے تو اس کےلیے یہ حکم نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایسی خواتین کےلیے ہے جو صفائی ستھرائی میں سستی دکھاتی ہوں۔ لہٰذا اگرعورت پہلے ہی صاف ستھری ہے تو پھر ہربار خاوند کے گھر آنے پرہربار ایسا کرنا؟ یہ حکم ایسی خواتین کےلیے نہیں ہے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں