معراج کے واقعہ سے متعلق جھوٹی باتیں

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

کیا قرآن وسنت میں ایسی صحیح دلیل موجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم جس وقت معراج سے واپس ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر کی چادر ابھی تک گرم تھی، اور جس برتن کو پانی انڈیل کر الٹا رکھ کر گئے تھے اس سے ابھی تک پانی زمین پر ٹپک رہا تھا، اسی طرح دروازے کی کنڈی بھی حرکت کر رہی ہے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے وقت حرکت میں تھی؟

264 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    سوال میں مذکور بات کی کوئی دلیل نہیں کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم معراج سے واپس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر کی چادر ابھی تک گرم تھی، اور معراج پر جانے سے پہلے جس برتن کو الٹا کیا تھا اس سے ابھی تک پانی ٹپک رہا تھا، اسی طرح دروازے کی کنڈی اسی طرح حرکت کر رہی تھی جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے وقت حرکت کر رہی تھی، ایسی بات کو ذکر بھی نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس میں بالکل واضح طور پر بناوٹی ہونے کے اثرات واضح ہو رہے ہیں۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر کی چادر کا ذکر کسی نے نہیں کیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ عربی لفظ ’’ملاءة ” کو چار پائی کے بسترے پر بولنا جدید عربی کا لفظ ہے۔ ویسے عربی زبان میں ” ملاءة ” چادر یا ازار کو کہتے ہیں۔ دیکھیں: “لسان العرب” (1/160) ، و”النهاية” (4/352)

    شیخ شقیری رحمہ اللہ کہتے ہیں:

    یہ کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج پر جانے اور واپس آنے تک کا سفر اتنی جلدی ہوا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر بھی ٹھنڈا نہیں ہو پایا تھا، یہ بات پایہ ثبوت تک نہیں پہنچتی، بلکہ یہ لوگوں کا اپنا گھڑا ہوا جھوٹ ہے۔ (السنن والمبتدعات:143)

    اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر کے دروازے کی کنڈی بھی نہیں تھی، کیونکہ عام طور پر گھروں کے دروازے ہی نہیں ہوتے تھے، جیسے کہ عبد الرحمن بن زید اللہ تعالی کے فرمان وَلا عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَنْ تَأْكُلُوا مِنْ بُيُوتِكُمْ سے لےکر أَوْ صَدِيقِكُمْ تک (تم پر کوئی حرج نہیں ہے کہ تم اپنے گھروں سے کھاؤ۔۔ یا دوستوں کے گھر سے) یہ حکم ابتداء میں تھا جب گھروں کے دروازے ہی نہیں ہوتے تھے، بلکہ صرف کپڑا لٹکا دیا جاتا تھا۔ ( تفسیر طبری:19/ 221)

    اس بات کے باطل ہونے کےلیے یہ بھی دلیل ہے کہ: صحیح بخاری:3342 اور صحیح مسلم: 163 میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب میں مکہ میں تھا تو میرے گھر کی چھت کھولی گئی، وہاں سے جبریل علیہ السلام نازل ہوئے، اور میرا سینہ چاک کیا، اور سینے کو زمزم کے پانی سے دھویا، پھر ایک سونے کی تھالی کو ایمان و حکمت سے بھر کر لایا گیا اور اس کو میرے سینے کو بھر دیا، پھر دوبارہ اسے بند کر کے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھےلےکر آسمان کی طرف چل دیے۔

    اس حدیث میں واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان کی طرف گھر کی چھت سے لے جایا گیا گھر کے دروازے کی جانب سے نہیں ۔

    وضاحت:
    بخاری اور مسلم میں دو رایات ہیں ایک میں

    أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَهُمْ عَنْ لَيْلَةِ أُسْرِيَ بِهِ بَيْنَمَا أَنَا فِي الْحَطِيمِ ۔(بخاری:3887)
    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے شب معراج کا واقعہ بیان کیا ، آپ نے فرمایا کہ میں حطیم میں لیٹا ہوا تھا ۔

    اور دوسری میں یہ بات ہے کہ

    حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

    میں مکہ میں تھا، میرے گھر کی چھت کھولی گئی او رجبرائیل آئے۔

    دونوں کے متعلق مولانا سلیمان ندوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

    ہمارے نزدیک اس کی صحیح تعبیر یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں آرام فرما تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشاہدہ یہ کرایا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں ہیں، اس کی چھت کھلی جبرائیل علیہ السلام آئے۔” (سیرت النبیؐ ، ج3 ص311)

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں