مؤمن کو پہنچنے والی تکلیف کب گناہوں کا کفارہ بنتی ہے

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ جب کسی مؤمن بندے کو تکلیف پہنچتی ہے، تو وہ اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے۔ تو کیا جو مؤمن پوری زندگی کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا رہتے ہیں۔ مثلا شوگر، بلیڈ پریشروغیرہ تو کیا یہ بیماریاں بھی ان کے گناہوں کا کفارہ بن رہی ہوتی ہیں؟

321 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    مؤمن بندے کو جو تکلیف پہنچتی ہے، اس کے بارے میں حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    ’’ مَا يصيب المسلم من نَصَب ولا وَصَب ولا همٍّ ولا حَزَن ولا أذًى ولا غمٍّ، حتى الشوكة يشاكها، إلا كفرّ الله بها من خطاياه‘‘ (صحیح البخاری :5642 ، صحیح مسلم 2573)
    مسلمان کو جب بھی کوئی پریشانی ، غم ، رنج ، تکلیف اور دکھ پہنچتا ہے حتی کہ اسے کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالی اس کے ساتھ گناہوں کو مٹا دیتا ہے ۔

    اللہ تعالیٰ اپنے مؤمن بندوں کو آزماتے ہیں، اور اس آزمانے، ابتلاء میں ڈالنے اور تکلیف دینے کے دو عظیم فائدے ہیں
    پہلا فائدہ
    اس بندے کا ایمان پختہ ہے یا اس کا ایمان متزلزل ہے؟۔تو جو اپنے ایمان میں سچے ہوتے ہیں اور اس آزمائش کو اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور فیصلہ سمجھ کر اللہ تعالیٰ سے ثواب کی نیت کرتے ہیں تو ان کےلیے معاملہ آسان ہوجاتا ہے۔
    دوسرا فائدہ
    جو لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی آزمائشوں پرصبر کرتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی بہت زیادہ تعریف کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ وہ (اللہ) ان کے ساتھ ہے، اور انہیں بغیرحساب کے اجر دے گا۔ تو اللہ تعالی کا مومن کو تکلیف دہ امور میں مبتلا کرنے کا سبب یہ ہے کہ وہ صابرین کے درجہ کو حاصل کرلیں۔

    لہٰذا جو مسلمان تکلیف، آزمائش وابتلاء چاہے وہ عارضی ہو، یا دائمی پر صبر کرتے ہیں، تو انہیں کو اجربے حساب ملتا ہے، انہی کے ساتھ اللہ تعالیٰ معاملات بھی آسان فرما دیتے ہیں، اور یہی تکلیف ان لوگوں کے گناہوں کا کفارہ بھی بنتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی آزمائش ایک امتحان ہوتی ہے، اور اس امتحان میں کامیابی کےلیے صبروشکراور رب کے حکم پر رضا ضروری ہے۔تب جاکر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام وکرام کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ لیکن جو بندہ ناشکری کرتا ہے، بےصبری کرتا ہے۔ تو وہ اس امتحان میں ناکام ہوجاتا ہے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں