ضعیف حدیث پہ عمل

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ صبح کے جو اذکار سینڈ کیے جاتے ہیں ان میں ایک دعا کی سند ضعیف ہے تو کیا ضعیف حدیث پہ عمل کر سکتے ہیں ؟

779 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن دعا کی دو قسمیں ہیں ۔
    (1) وہ دعائیں جو زمان، مکان، عبادت، عدد اور فضیلت سے متعلق ہوں۔ مثلا سفرکی دعا، گھر میں داخل ہونے کی دعا،نمازکی دعائیں اورمتعین عدد وفضائل والی دعائیں وغیرہ
    اس قسم کی دعا کے لئے ضروری ہے کہ وہ صحیح سند سے ثابت ہو ںتبھی ہم ان پر عمل کریں گے ۔ اگر اس قبیل سے کوئی دعا ضعیف حدیث میں مذکورہو تو ہم اس پر عمل نہیں کریں گے ۔ مثلا نئے سال کی دعا طبراني اوسط میں ہے۔عبداللہ بن ہشام سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ صحابہ کرام ایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے تھے سال یا مہینے کی آمد پہ “اللهم أدخله علينا بالأمن والإيمان، والسلامة والإسلام، ورضوان من الرحمن، وجواز من الشيطان”۔
    ٭اس حدیث کو شیخ البانی نےضعیف کہا ہے ۔ [ سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة ( ج 8 / ص 6 حديث رقم 3504) ] .
    چونکہ یہ حدیث نئے سال والی زمان سے متعلق ہے اس وجہ سے اس پر عمل نہیں کیاجائے گا۔ اس طرح سےمکان، عبادت، عدد اور فضیلت سے متعلق ضعیف دعائیں سمجھ لیں۔

    (2) دوسری وہ دعائیں جو عام ہوں جو کبھی بھی کی جاسکتی ہوں یعنی زمان، مکان، عبادت، عدد اور فضیلت سے متعلق نہ ہوں تو ایسی دعائیں کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ ہمیں معلوم ہے کہ اللہ تعالی سے کسی بھی زبان میں اور کسی بھی الفاظ میں دعا کرسکتے ہیں۔ اس وجہ سے ضعیف حدیث میں وارد عام دعائیں کرسکتے ہیں ان میں سے ایک دعا صبح کے اذکار میں ہے ۔
    مگرچندباتوں پہ دھیان دینا ہوگا۔
    ٭ اولا اس دعا کو نبی ﷺ سے ثابت ہونے کا اعتقاد نہ رکھا جائے ۔
    ٭ ثانیا دعا کے الفاظ میں کوئی شرعی قباحت نہ ہو۔
    ٭ ثالثا اس دعا کے لئے کوئی متعین فضیلت کی امید نہ رکھے ۔
    ٭ رابعا اس دعا کا خصوصی التزام نہ کرےیعنی کبھی کبھار پڑھ لیا کرے اور کبھی کبھار چھوڑ دے ۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں