تھکاوٹ اور بیماری میں نماز کی سنتوں کو چھوڑ دینا

سوال

لسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ بعض اوقات تھکاوٹ یا بیماری کی وجہ سے فرض نماز تو پڑھ لی جاتی ہے لیکن فرض رکعات سے قبل یا بعد کی سنتیں اداء نہیں کی جاتیں، تو اس کا کیا حکم ہے؟

495 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:
    بہن فرائض کے ساتھ سنتوں کی ادائیگی کو یقینی بنانا چاہیے، کیونکہ حدیث میں آتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

    إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ العَبْدُ يَوْمَ القِيَامَةِ مِنْ عَمَلِهِ صَلَاتُهُ، فَإِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ، وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ، فَإِنْ انْتَقَصَ مِنْ فَرِيضَتِهِ شَيْءٌ، قَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: انْظُرُوا هَلْ لِعَبْدِي مِنْ تَطَوُّعٍ فَيُكَمَّلَ بِهَا مَا انْتَقَصَ مِنَ الفَرِيضَةِ، ثُمَّ يَكُونُ سَائِرُ عَمَلِهِ عَلَى ذَلِكَ ۔ (ترمذی:413)
    قیامت کے دن سب سے پہلے بندوں کے جس عمل کا حساب لیا جائے گا وہ ان کی نماز ہے، اگر وہ درست ہوئی تو یقیناً وہ کامیاب اورسرخ رو ہوگا اور اگر نماز خراب ہوئی تو ناکام ونامراد ہوگا، پھر اگر فرائض میں کچھ کوتاہی رہی ہو تو اللہ عزو جل فرمائے گا دیکھو کیا میرے بندے کے نامہ اعمال میں کچھ نوافل ہیں کہ اس کے ذریعہ فرائض کی کمی پوری کی جاسکے؟ پھر اس کے سارے اعمال کا حساب اس طریقے پر ہوگا۔

    نوافل کی ادائیگی فرائض کی کمی کوتاہی کو پورا کرنے میں کافی ہوتی ہے۔ اور پھر رضائے الہی میں سبقت لے جانے اور الہی قربت کے حصول کا سب سے اہم ذریعہ بھی نوافل ہیں، جیسا کہ حدیث قدسی میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

    اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ (صحیح بخاری :6502)

    لہذا ہر مومن کو چاہئے کہ نوافل میں خاص کر وہ نوافل جو فرائض کے آگے پیچھے ہیں کوتاہی نہ کرے اور یہ کہہ کر پیچھا نہ چھڑائے کہ یہ فرائض میں داخل نہیں ہے اور نہ ہی ان کے چھوڑنے میں کوئی گناہ ہے۔

    لیکن اگر کسی وجہ سے چھوڑ بھی دی جائیں، تو گناہ نہیں۔ بہرحال دوام رکھنا چاہیے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں