کیا بخاری ومسلم کی احادیث صحیح ہیں

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ کیا بخاری ومسلم کی احادیث صحیح ہیں؟

268 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! امام بخاری رحمة اللہ علیہ اور امام مسلم رحمة اللہ علیہ دونوں کا اپنی صحیحین کے بارے میں دعویٰ یہ ہے کہ ان کی صحیحین میں موجود تمام روایات صحیح حدیث کے درجے کو پہنچتی ہیں۔ امام بخاری رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب ‘صحیح بخاری’ کے بارے میں فرماتے ہیں:

    ما أدخلت في ھٰذا الکتاب إلا ما صحَّ ۔(سیر اعلام النبلاء : ج10؍ص283)
    میں نے اپنی اس کتاب میں صرف صحیح روایات ہی کو بیان کیا ہے۔

    اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا:

    ما أدخلت في الصحیح حدیثًا إلا بعد أن استخرت اﷲ تعالی وتیقَّنتُ صحَّتَه۔(هدي الساري مقدمة فتح الباری ،ص347)
    میں نے اپنی ‘صحیح’ میں کوئی حدیث اس وقت تک نہیں لکھی جب تک میں نے اللہ سے استخارہ نہیں کر لیا اور مجھے اس حدیث کی صحت کا یقین نہیں ہو گیا۔

    اسی طرح امام مسلم رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب صحیح مسلم کے بارے میں فرماتے ہیں:

    لیس کل شيء عندي صحیح وضعتُه ھٰھنا، إنما وضعت ھٰھنا ما أجمعوا علیه۔ (صحیح مسلم:تحت حدیث 612)
    میں نے ہر صحیح حدیث اپنی کتاب میں بیان نہیں کی بلکہ میں نے اس کتاب میں وہ حدیث بیان کی ہے کہ جس کی صحت پر محدثین کا اجماع ہے۔

    امام ابو عبد اللہ حمیدی رحمة اللہ علیہ (بخاری ومسلم کے استاذ حدیث )فرماتے ہیں :

    لم نجد من الأئمة الماضین من أفصح لنا في جمیع ما جمعه بالصحة إلا ھذین الأمامین ۔ (مقدمہ ابن الصلاح،ص13)
    ہم نے پچھلے ائمہ میں سے، امام بخاری رحمة اللہ علیہ و امام مسلم رحمة اللہ علیہ کے علاوہ کسی ایک کو بھی ایسا نہیں پایا کہ جس نے یہ وضاحت کی ہو کہ اس کی تمام جمع کردہ روایات صحیح ہیں ۔

    بخاری ومسلم کی صحت پہ محدثین کا اجماع ہوچکاہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

    اہل فن کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحیحین یا ان میں سے کسی ایک کی تمام احادیث کا صحیح ہونااُمت میں ان کتابوں کے تلقی بالقبول سے ثابت ہے اور اس تلقی بالقبول کے ثابت ہونے پر اجماع ہے ۔ اور اس قسم کے اجماعات سے ہر قسم کا شبہ رفع ہو جاتا ہے اور شک دور ہو جاتا ہے۔(قطر
    الولی،ص230)

    تحفة الاحوذی کے مؤلف علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمة اللہ علیہ کا بیان ہے کہ

    جہاں تک صحیحین کا معاملہ ہے تو محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ ان دونوں کتابوں میں جتنی متصل مرفوع احادیث موجود ہیں ، وہ قطعی طور پر صحیح ہیں اور یہ دونوں کتابیں اپنے مصنّفین تک متواتر ہیں اور جو کوئی بھی ان دونوں کتابوں کا درجہ کم کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ بدعتی ہے اور اہل ایمان کے رستے پر نہیں ہے۔(مقدمة تحفة الأحوذي، ص47)

    معروف دیوبندی عالم مولانا سرفراز خان صفدر لکھتے ہیں :

    بخاری و مسلم کی جملہ روایات کے صحیح ہونے پراُمت کا اجماع واتفاق ہے۔ اگر صحیحین کی معنعن حدیثیں صحیح نہیں تو اُمت کا اتفاق اوراجماع کس چیز پرواقع ہواہے جبکہ راوی بھی سب ثقہ ہیں ۔ (احسن الکلام،مولانا محمد سرفرازصفدر :ج1؍ص249)

    پس معلوم ہوا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی جمیع روایات کی صحت پر ائمہ محدثین کا اتفاق ہے اور یہ اتفاق ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی اجتہادی مسئلے میں فقہا کا اتفاق ہوتا ہے۔ اور یہ بات واضح رہے کہ کسی حدیث کی تصحیح یا تضعیف میں محدثین کا اجماع ہی معتبر ہو گا اور اس میں کسی فقیہ کی مخالفت سے اجماع کا دعویٰ متاثر نہ ہوگا، جس طرح کے کسی فقہی مسئلے میں اصل اعتبار فقہا کے اتفاق کا ہو گا اور کسی محدث کے اختلاف سے اجماع ختم نہیں ہو گا کیونکہ ہر فن میں اہل فن کا ہی اتفاق واجماع معتبر ہو تا ہے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں