خواتین گھروں میں اعتکاف کیوں نہیں کرسکتیں
سوال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سوال:
بہن نے سوال کیا ہے کہ خواتین گھروں میں اعتکاف کیوں نہیں کرسکتیں، اس کی کیا دلیل ہے؟وضاحت فرمائیں
Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link and will create a new password via email.
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit.Morbi adipiscing gravdio, sit amet suscipit risus ultrices eu.Fusce viverra neque at purus laoreet consequa.Vivamus vulputate posuere nisl quis consequat.
جواب ( 1 )
جواب:
بہن! عورت گھر میں اعتکاف نہیں کر سکتی ، کیونکہ اعتکاف کی شرعی تعریف یہ ہے :
المکث فى المسجد من شخص مخصوص بصفة مخصوصة ۔ (شرح مسلم للنووی : ١/٣٧١)
کسی مخصوص شخص کا خاص صفت کے ساتھ مسجد میں ٹھہرنے کا نام اعتکاف ہے ۔
امام بریلویت احمد یار خان بریلوی لکھتے ہیں :
اعتکاف کا معنیٰ ہیں ، عبادت کی نیت سے مسجد میں ٹھہرنا ۔(تفسیر نور العرفان : ٤٤)
حافظ نووی رحمہ للہ لکھتے ہیں :
وفی هذہ الأحاديث أن الاعتکاف لا يصحّ الّا فی المسجد ، لأنّ النّبى صلی الله عليه وسلم وأزواجه وأصحابه انّما اعتکفوا فی المسجد مع المشقّة فی ملازمة ، فلو جاز فی البيوت لفعلوه ولو مرّة ، لا سيما النّساء ، لأنّ حاجتهنّ اليه فی البيوت أکثر ، وهذا الّذی ذکرناه من اختصاصه بالمسجد ، وأنّه لا يصحّ فی غيره ، هو مذهب مالک والشّافعى وأحمد وداو،د والجمهور ، سواء الرّجل والمرأة ۔(شرح مسلم للنووی : ١/٣٧١)
ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اعتکاف صرف مسجد میں جائز ہے ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ کی ازواج اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم ، نے مشقت کے باوجود مسجد میں ہی اعتکاف کیا ، اگر گھر میں جائز ہوتا تو آپ ایک مرتبہ( بیانِ جواز کے لیے )ہی ایسا کرتے ، خصوصا ً جب کہ آپ کی ازواج کے لیے گھر میں اعتکاف کی زیادہ ضرورت تھی، مرد اور عورت دونوں کے لیے صرف مسجد میں اعتکاف کے جواز اور مسجد کے علاوہ عدمِ جواز کا جو مؤقف ہم نے بیان کیا ہے ، یہ امام مالک ، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل ، داو،د اور جمہور محدثین رحمہ اللہم کا ہے ۔
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ آیت ِ مبارکہ (وَاَنْتُمْ عَاکِفُونَ فِیْ الْمَسَاجِدِ)کے تحت لکھتے ہیں :
فعلم من ذکر المساجد أنّ المراد أنّ الاعتکاف لايکون الّا فيها ۔(فتح الباری : ٤/٢٧٢)
اس آیت میں مسجدوں کے ذکر سے معلوم ہوا کہ مسجد کے علاوہ اعتکاف ہوتا ہی نہیں ۔
ہر وہ حکم جو مردوں کے لیے ثابت ہو ، وہ عورتوں کے لیے بھی ثابت ہوتا ہے الایہ کہ عورتوں کے لیے اس بارے میں استثنیٰ ثابت ہو جائے۔ جب مرد کا اعتکاف مسجد کے علاوہ کہیں جائز نہیں تو عورت کے لیے بغیر دلیل کے جائز کیوں ؟ پھر سب کے نزدیک مسجد میں ٹھہرنا اعتکاف کا رکن بھی ہے۔ (الھدایۃ مع البنایۃ : ٣/٤٠٧، ابن عابدین : ٢/٤٤١، بلغۃ السالک : ١/٥٣٨، کشاف القناع : ٢/٣٤٧)
جب اعتکاف مسجد کے ساتھ خاص ہے اور مسجد میں ٹھہرنا اعتکاف کا رکن ہے تو پھر بغیر دلیل کے عورت سے یہ ’خصوصیت‘ اور ’رکنیت‘ کیسے ساقط ہو گئی ؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی ازواجِ مطہرات مسجد میں ہی اعتکاف کیا کرتی تھیں ، اگر عورت کے لیے گھر میں اعتکاف کرنا صحیح ہوتا تو وہ اپنے گھروں میں اعتکاف کرتیں ، علاوہ ازیں عورت کو گھر میں رہنے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے ، مگر اس کے باوجود مسجد میں اعتکاف کرتی تھیں ،کسی صحابی سے اس پر انکار ثابت نہیں ، گویا کہ عورت کے مسجد میں اعتکاف کے جواز پر صحابہ کرام کا اجماع تھا ۔
ابنِ ہبیرہ لکھتے ہیں :
وأجمعوا علی أنّه لا يصحّ اعتکاف المرأة فی بيتها ، الّا أبا حنيفة قال : يجوز اعتکافها فى مسجد بيتها ۔ (الافصاح لابن ہبیرۃ : ١/٢٥٦)
اس بات پر (مسلمانوں کا )اجماع و اتفاق ہے کہ عورت کا اعتکاف گھر میں صحیح نہیں ، لیکن ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ اس کے لیے اپنے گھر کی نماز والی جگہ میں اعتکاف جائز ہے ۔
برصغیر کے حنفی عالم علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفی لکهتے ہیں :
لو اعتکفت فی مسجد جماعة فی خباء ضرب لها فيه ، لا بأس به ، لثبوت ذالک عن أزواج النّبیّ صلی الله علیه وسلم فی عهدہ کما ثبت فی صحيح البخارى۔(عمدۃ الرعایۃ : ١/٢٥٥)
اگر عورت ایسی مسجد میں جس میں نماز باجماعت ہوتی ہو اور اس کے لیے خیمہ لگایا گیا ہو ، اعتکاف کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ، کیونکہ اس کا ثبوت عہد ِ نبوی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے ملتا ہے ، جیسا کہ صحیح بخاری سے ثابت ہے ۔
علامہ ابنِ قدامہ المقدسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ہماری دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان (وَاَنْتُمْ عَاکِفُونَ فِیْ الْمَسَاجِد)ہے،اس سے مراد وہ جگہیں ہیں جو نماز کے لیے بنائی گئی ہیں ، عورت کی گھر میں نماز کی جگہ وہ مسجد نہیں ہے ، اس لیے کہ وہ نماز کے لیے نہیں بنائی گئی ، اگرچہ مجازی طور پر اس کا نام مسجد رکھا گیا ہے ، اس جگہ کے لیے حقیقی مسجد کے احکام ثابت نہیں ہوتے ، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان (جعلت لى الأرض مسجداً) (میرے لیے ساری زمین مسجد بنا دی گئی ہے )ہے ، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسجد نبوی میں اعتکاف کرنے کی اجازت چاہی تو آپ نے ان کو اجازت دے دی ، اگر مسجد ان کے لیے اعتکاف کی جگہ نہیں تھی تو آپ نے ان کو اجازت کیوں دی ؟ اگر مسجد کے علاوہ کہیں اور اعتکاف کرنا افضل ہوتا تو آپ ان کو اس جگہ کی طرف رہنمائی دیتے ، لہٰذا (عورت کا گھر میں اعتکاف نہیں ہو سکتا)، چونکہ اعتکاف قربت کا نام ہے ، اس قربت کا حصول مرد کے حق میں مسجد کے ساتھ مشروع کیا گیا ہے ، پس عورت کے حق میں بھی مشروع کر دیا گیا ہے ، جس طرح کہ طواف ہے ۔”(المغنی لابن قدامۃ : ٣/١٩٠)
صحیح بخاری سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو مسجد میں اعتکاف کی اجازت دی ، ایک دوسری روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے انکار بھی ثابت ہے ، وہ کسی عارضہ کے پیشِ نظر تھا ، ہو سکتاہے کہ ازواجِ مطہرات کے کثرت سے مسجد میں خیمے لگانے سے مسجد تنگ ہو جانے کا خدشہ ہو ۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کیا تب بھی آپ نے ان کو گھر میں اعتکاف کرنے کا حکم نہیں دیا ، اگر عورت کا مسجد میں اعتکاف کرنا صحیح نہیں تو قبل ازیں عورتوں کو اجازت کیوں دی تھی ؟ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے بعد بھی عورتیں مسجد میں ہی اعتکاف کیا کرتی تھیں ، لہٰذا ثابت ہوا کہ عورت قطعی طور پر گھر میں اعتکاف نہیں کر سکتی ۔
علاوہ ازیں گھر کی مسجد میں عورت کے اعتکاف کو اس کی نماز پر قیاس کرنا کہ جس طرح عورت کی نماز گھر میں افضل ہے ، اسی طرح اعتکاف بھی افضل ہے ، یہ قیاس باطل ہے ، کیونکہ ازواجِ مطہرات کا مسجد میں اعتکاف کرنا نص سے ثابت ہے ، نص کے مقابلے میں قیاس غیر مقبول اور باطل ہوتا ہے ۔
اگر گھر کی مسجد میں عورت کے لیے اعتکاف کرنا جائز ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات ضرور بالضرور گھر میں اعتکاف کرتیں ، پھر اعتکاف کا قیاس نماز کے ساتھ صحیح نہیں ہے ،کیونکہ مرد کی سنتیں اور دوسری نفلی نماز گھر میں افضل ہے ، اعتکاف جو کہ سنت ہے ، وہ اس کے لیے گھر میں جائز نہیں ہے تو عورت کے لیے کیسے جائز ہوگا ؟
خلاصہ کلام یہ کہ اگر عورت سمجھتی ہے کہ وہ مسجد میں محفوظ و مأمون ہے تو خاوند کی اجازت سے مسجد میں اعتکاف کرے ، ورنہ ترک کر دے ۔
واللہ اعلم بالصواب