کیا صدقہ فطرنقدی کی صورت میں دیا جاسکتا ہے؟
سوال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سوال:
بہن نے سوال کیا ہے کہ کیا ہم صدقۃ الفطر پیسوں(نقدی) کی صورت میں دے سکتے ہیں؟
Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link and will create a new password via email.
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit.Morbi adipiscing gravdio, sit amet suscipit risus ultrices eu.Fusce viverra neque at purus laoreet consequa.Vivamus vulputate posuere nisl quis consequat.
جواب ( 1 )
جواب:
بہن! اس حوالے سے علماء کے دو گروہ ہیں۔ ایک تو کہتے ہیں کہ صدقۃ الفطرروز مرہ کی خوراک سے ہی ادا کرنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ صدقہ فطراداء نہیں ہوگا۔ جبکہ دوسرے علماء کہتے ہیں کہ افضل وبہتر یہی ہے کہ صدقہ فطرروزمرہ کی خوراک سے ہی دیا جائے۔ لیکن اگرکوئی نقدی(پیسوں) کی صورت میں بھی دے دیتا ہے، تو صدقہ فطرادا ہوجائے گا۔ یعنی پیسوں کی صورت میں صدقہ فطرادا کرنا بھی جائز ہے۔
جو کہتے ہیں کہ صدقہ فطرصرف روز مرہ کی خوراک سے ہی ادا ہوتا ہے، یہ علماء ان پرنقد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیا مسکین صدقۃ الفطر کو وصول کرکے اسے بیچ سکتا ہے اور پیسے بنا سکتا ہے یا نہیں؟ تو اس بارہ میں اہل علم کے مابین کوئی دو رائے نہیں ہیں۔ بے شک مسکین صدقۃ الفطر کے مال کو بیچ کر پیسے بنا سکتا ہے۔ تو اس پر یہ کہتے ہیں کہ آپ اگر مسکین کو اجناس ہی دیں گے تو وہ ان اجناس کو جو اس کے پاس ذاتی ضرورت سے زائد ہوگی فروخت کرنے کے لیے مارکیٹ میں جائے گا تو دکاندار حضرات انتہائی کم بلکہ کم ترین ریٹ پر ان سے وصول کریں گے، یعنی مساکین کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور اس کی مثالیں سعودیہ میں بکثرت دیکھی جاسکتی ہیں کہ اناج کا ڈھیر لگا کر ایک شخص بیچنے کے لیے بیٹھا ہے لوگ اس سے غلہ خریدتے ہیں اور مساکین کو دے دیتے ہیں اور وہ مسکین اسی شخص کو جس سے وہ غلہ خریدا گیا ہوتا ہے واپس فروخت کرتا ہے تو نصف یا اس کے قریب قیمت اسے ملتی ہے۔
اس لیے شریعت اسلامیہ میں وکالت کا جواز موجود ہے کہ کوئی شخص اگر کوئی بھی کام خود سرانجام نہیں دے سکتا یا اسے اس کام میں نقصان کا اندیشہ ہے تو وہ کسی دوسرے کو اپنا وکیل بنا لے اور اس کا وکیل اس کی طرف سے معاملات طے کرے۔ دین اسلام کی اسی وکالت والی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اگر صدقۃ الفطر دینے والا خود مسکین کی طرف سے وکالت کرتے ہوئے اسے اس جنس کے پیسے بنا کر دے دے جو کہ مسکین کو حاصل ہونے والی رقم سے کہیں زیادہ ہے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ اگر مسکین کے پاس اناج وغلہ نہیں ہے یا مسکین حاصل ہونے والی اجناس کو فروخت نہیں کرنا چاہتا تو اسے جنس ہی فراہم کرنا اولی وافضل وبہترہے۔ بصورت دیگر نقدی کی صورت میں بھی دیا جاسکتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب