میت کو غسل و کفن دینے کا شرعی طریقہ

سوال

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

سوال!!

بہن نے سوال کیا ہے کہ میت کو غسل دینے کا کیا طریقہ ہے اور عورت کے کفن میں کتنی چادریں ہوتی ہیں نیز بالوں کی کتنی چوٹیاں بنائی جائیں ؟؟

990 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب!!

    میت کو غسل دینے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اسے استنجا کرایا جائے،یعنی اس کی شرم گاہ کو دھویا جائے۔دھونے سے پہلے مٹی کے ڈھیلے صفائی کے لئے استعمال کئے جاسکتے ہیں ،پھر اسے غسل دیا جائے۔اعضائے وضو سے شروع کرے اور اسے وضو کرائے،لیکن میت کے منہ اور ناک میں پانی داخل نہ کیا جائے بلکہ غسل دینے والے کو چاہیے کہ کپڑے کے ایک ٹکڑے کو گیلا کرکے اس کے ساتھ میت کے منہ اور ناک کوصاف کرے پھر اس کے باقی جسم کو غسل دے۔
    بہتر ہے کچھ پانی میں بیری کے پتے کوٹ کر ڈال دیئے جائیں یا انہیں پانی میں جوش دیا جائے۔اس پانی سے اس کے سر اور داڑھی کو دھویا جائے۔ بیری کے پتوں کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے جسم بہت زیادہ صاف ہوجاتا ہے۔ بیری کے پتے استعمال کرنا مسنون عمل ہے۔ ان کی جگہ صابن استعمال کرنا بھی جائز ہے۔ آخری غسل میں ‘‘کافور’’ بھی استعمال کیا جائے۔اس کا فائدہ یہ ہے کہ جسم کو سخت کردیتا ہے اور کیڑے مکوڑوں کو بھگادیتا ہے۔اگر میت کو زیادہ میل کچیل لگی ہے تو اسے زیادہ بار بھی غسل دیا جاسکتا ہے۔رسول اللہﷺ نے اپنی لخت جگر حضرت زینبؓ کو غسل دینے والی خواتین سے فرمایا تھا:‘‘ اسے تین یا پانچ بار غسل دو،اگر ضرورت محسوس کرو تو اس سے بھی زیادہ مرتبہ غسل دو۔’’(صحیح بخاری،الجنائز:۱۲۵۳)
    میت کو غسل دینے والا اگر محسوس کرے کہ میت کے جسم سے آلائش وغیرہ نکل کر اسے لگی ہے تو اسے چاہیے کہ میت کو غسل سے فراغت کے بعد خود بھی غسل کرے، اگر اسے یقین ہے کہ میت سے کوئی چیز برآمد نہیں ہوئی تو غسل دینے والے کو نہانے کی ضرورت نہیں ہے۔میت کو غسل دینے کے بعد اسے صاف ستھرا کفن پہنا دیا جائے۔
    کفن کی چادریں
    عورت کے کفن کے متعلق اہل علم میں اختلاف ہے اس اختلاف کی بنیاد لیلیٰ بنت قائف الثقفیہr سے مروی حدیث کے صحیح اور ضعیف ہونے کا اختلاف ہے۔

    لیلیٰ بنت قائف ثقفیہ بیان کرتی ہیں کہ میں ان عورتوں میں شامل تھی جنہوں نے ام کلثوم بنت النبیe کو ان کی وفات کے وقت غسل دیا تھا۔ آپe نے ہمیں (ان کے کفن کے لیے) سب سے پہلے اپنا تہبند دیا پھر قمیص پھر اوڑھنی پھر ایک چادر ان کو لپیٹنے کے لیے پھر ان (کپڑوں) کے بعد (آپ کی بیٹی کو) ایک دوسرے کپڑے میں لپیٹا گیا بیان کرتی ہیں رسول اللہeکفن کے لیے دروازے کے پاس تشریف فرما تھے اور ہمیں ایک ایک کپڑا دیتے جاتے تھے۔
    (ابو داؤد، کتاب الجنائز باب فی کفن المرأۃ ح:3175)

    محقق حافظ زبیر علی زئی نے اس کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اس کی سند میں نوح بن حکیم مجہول الحال راوی ہے۔
    علامہ ناصر الدین البانی فرماتے ہیں ولا یصح اسنادہ۔
    (احکام الجنائز، مسئلہ نمبر43 ص:85)

    امام زیلعی حنفی، نوح بن حکیم کے علاوہ بھی اس کی سند کو ایک اور علت قادحہ کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے۔
    (نصب الرایۃ جلد2، ص:258)

    راجح قول یہی ہے کہ یہ روایت تو ثابت نہیں ہے۔ اس لیے اس کو عورت کے کفن کے پانچ کپڑوں کی دلیل بنانا درست نہیں ہے۔
    اسی لیے علامہ ناصر الدین البانیh فرماتے ہیں کہ۔ والمرأۃ فی ذلک کالرجل اذ لا دلیل علی التفریق۔
    (احکام الجنائز، ص:85)

    عورت اس (کفن کے کپڑوں میں) مرد کی طرح ہے۔ کیونکہ مرد اور عورت کے کفن میں فرق کی صحیح اور مرفوع حدیث نہیں ہے۔
    جب کسی صحیح اور مرفوع حدیث میں عورت کے کفن کے پانچ کپڑوں کا ثبوت ہی نہیں ہے تو اس کے لیے بھی مردوں کی طرح تین چادروں کا کفن ہی مسنون ہو گا۔

    اگر چادریں چھوٹی ہوں میت کے جسم کو نہ ڈھانپتی ہوں تو دو یا اس سے زائد چادروں کو سلائی کر کے بڑی چادر بنائی جا سکتی ہے۔ البتہ کفن کے کپڑوں کی میت کے اعضاء کے مطابق سلائی کی بھی کوئی دلیل نہیں نہ عہد رسالت میں اور نہ ہی صحابہ سے ایسا کوئی عمل ملتا ہے۔
    آخرمیں عورت کے بالوں کی کنگھی کر کے اسکی تین لڑیاں (چوٹیاں) بنائی جائیں، دو کانوں کی طرف کے بالوں کی اور ایک سامنے کے بالوں کی.
    صحیح مسلم،
    حدیث نمبر: 2169

ایک جواب چھوڑیں