کیا کسی پیر کی بیعت کرنا لازمی ہے

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ کسی پیر کی بیعت کرنا لازمی ہے؟ اگر نہیں تو کیوں؟

319 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! صرف مسلمانوں کے خلیفہ اور امام کی بیعت کرناجائز ہے، اہل حل وعقد علماء، فضلاء اور ذمہ داران حکومت اس کی بیعت کریں گے۔ جس سے اس کی ولایت ثابت ہو جائےگی۔ عامۃ الناس کے لئے اس کی بیعت کرنا ضروری نہیں ہے۔ ان پر صرف اتنا لازم ہے کہ وہ اطاعت الہی میں اس کی فرمانبرداری کریں۔

    امام مارزی فرماتے ہیں:

    ’’يَكْفِي فِي بَيْعَةِ الإِمَامِ أَنْ يَقَع مِنْ أَهْل الْحَلِّ وَالْعَقْدِ وَلا يَجِب الاسْتِيعَاب , وَلا يَلْزَم كُلّ أَحَدٍ أَنْ يَحْضُرَ عِنْدَهُ وَيَضَع يَدَهُ فِي يَدِهِ , بَلْ يَكْفِي اِلْتِزَامُ طَاعَتِهِ وَالانْقِيَادُ لَهُ بِأَنْ لا يُخَالِفَهُ وَلا يَشُقَّ الْعَصَا عَلَيْهِ انتهى‘‘ (نقلاً من فتح الباري )
    امام کی بیعت میں اہل حل وعقد کی بیعت ہی کافی ہے۔ بیعت بالاستیعاب واجب نہیں ہے۔ ہر شخص پر ضروری نہیں ہے کہ وہ امام کے پاس حاضر ہو اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے۔ بلکہ اس پر اتنا ہی لازم ہے کہ وہ اس کی اطاعت کرے اور اس کی مخالفت نہ کرے، اور اس کے خلاف ہتھیار نہ اٹھائے۔

    امام نووی صحیح مسلم کی شرح میں فرماتے ہیں:

    ’’أَمَّا الْبَيْعَة : فَقَدْ اِتَّفَقَ الْعُلَمَاء عَلَى أَنَّهُ لا يُشْتَرَط لِصِحَّتِهَا مُبَايَعَة كُلّ النَّاس , وَلا كُلّ أَهْل الْحَلّ وَالْعِقْد , وَإِنَّمَا يُشْتَرَط مُبَايَعَة مَنْ تَيَسَّرَ إِجْمَاعهمْ مِنْ الْعُلَمَاء وَالرُّؤَسَاء وَوُجُوه النَّاس وَلا يَجِب عَلَى كُلّ وَاحِد أَنْ يَأْتِيَ إِلَى الأَمَام فَيَضَع يَده فِي يَده وَيُبَايِعهُ , وَإِنَّمَا يَلْزَمهُ الانْقِيَادُ لَهُ , وَأَلا يُظْهِر خِلافًا , وَلا يَشُقّ الْعَصَا انتهى.‘‘
    اہل علم کا اس امر پر اتفاق ہے کہ بیعت کی صحت کے لئےتمام لوگوں یا تمام اہل حل وعقدکا بیعت کرنا شرط نہیں ہے۔ اس میں صرف اتنی شرط ہے کہ جو علماء سردار اور ذمہ داران آسانی سے دستیاب ہو سکتے ہوں وہ بیعت پر اجماع کرلیں تو بیعت واقع ہو جائے گی۔ ہر شخص پر ضروری نہیں ہے کہ وہ امام کے پاس حاضر ہو اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے۔ بلکہ اس پر اتنا ہی لازم ہے کہ وہ اس کی اطاعت کرے اور اس کی مخالفت نہ کرے، اور اس کے خلاف ہتھیار نہ اٹھائے۔
    اور بیعت کے حوالے وارد تمام احادیث سے امام کی بیعت مراد ہے۔ دیگر افراد یا جماعتوں یا پھر پیروں فقیروں کی بیعت مراد نہیں ہے۔ شیخ صالح الفوزان ایسی بیعتوں کے بارے میں فرماتے ہیں:

    ” البيعة لا تكون إلا لولي أمر المسلمين ، وهذه البيعات المتعددة مبتدعة ، وهي من إفرازات الاختلاف ، والواجب على المسلمين الذين هم في بلد واحد وفي مملكة واحدة أن تكون بيعتهم واحدة لإمام واحد ، ولا يجوز المبايعات المتعددة۔( المنتقى من فتاوى الشيخ صالح الفوزان 1/367)
    صرف مسلمانوں کے خلیفہ اور امام کی بیعت کرناجائز ہے، اور یہ متعدد بیعتیں بدعت ہیں، اور اختلافات کا ذریعہ ہیں۔ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ ایک ملک میں صرف ایک ہی امام کی بیعت کریں (اگر واقعی کوئی امام موجود ہو) اور متعدد بیعتیں کرنا جائز نہیں ہے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں