تارک صلاۃ کافر یا مسلم

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ کیا نماز چھوڑنے اور نہ پڑھنے والا کافر ہے؟ یعنی ریگولر نماز نہیں پڑھتا، بس کبھی کبھار یا صرف جمعہ کی پڑھتا ہے۔ تو کیا ایسا انسان کافر ہے؟اسی طرح ایسا شخص جو کلمہ تو پڑھتا ہولیکن نماز کا منکر ہو تو اس بارے کیا حکم ہے؟اور کیا بے نمازی کی نماز جنازہ پڑھنی چاہیے کہ نہیں۔

537 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن اس حوالے سے مابین علماء اختلاف پایا جاتا ہے، اور علماء کرام کی طرف سے مختلف طرح کے فتوے بھی ہیں، بہرحال اسلام کیو اے کمیٹی کا فتویٰ قرآن وحدیث کے دلائل کی روح کے موافق اور معتدل ہے، اسے اختصار کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے

    نماز کے انکاری کے حوالے سے جو بات ہے تو اس پر عرض ہے کہ جو کلمہ گو ہے، اور اس بات کو جانتا بھی ہے کہ اللہ تعالی نے نماز قائم کرنے کا حکم دیا ہے، لیکن پھر بھی نماز کی فرضیت کا انکارکرتا ہے تو ایسا شخص بالاجماع کافر ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں۔

    ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
    تارک نماز کی دو صورتیں ہیں: نماز کی فرضیت کا انکاری ہوگا، یا فرضیت کو تسلیم کرتا ہوگا، اگر تو فرضیت کا انکاری ہے تو دیکھا جائے گا: اگر وہ نماز کی فرضیت سے لا علم ہے، اور وہ ایسے لوگوں میں سے ہے جو واقعی نماز کی فرضیت سے لاعلم ہوں، مثال کے طور پر: نو مسلم افراد، جنگلوں میں رہنے والے افراد وغیرہ تو انہیں نماز کی فرضیت کے بارے میں بتلایا جائے گا، اور طریقہ بھی سیکھایا جائے گا، ان لوگوں پر کفر کا فتوی نہیں لگ سکتا؛ کیونکہ ان کا عذر مقبول ہے۔ اور اگر نماز کی فرضیت کا انکاری شخص ایسے لوگوں میں سے نہیں ہے جو نماز کی فرضیت سے لاعلم رہیں تو اس پر کفر کا فتوی لگے گا، کیونکہ مسلمانوں کے درمیان رہنے والے شخص سے نماز کی فرضیت مخفی نہیں رہ سکتی، لہذا ایسا شخص اللہ ، اس کے رسول اور اجماع امت کو مسترد کرتے ہوئے نماز کا انکار کر رہا ہے، اس بنا پر یہ شخص مرتد ہوگا، اور اس کے ساتھ توبہ کا موقع فراہم کرنے کے بعد قتل کا معاملہ بالکل مرتدین ہی کی طرح کیا جائے گا، اور اس بات پر کسی قسم کا اختلاف بھی نہیں ہے۔ (المغنی:2/156)

    اور جو شخص نماز کے معاملے میں سستی اور کوتاہی برتتے ہوئے نماز چھوڑ دے تو اس کے بارے میں علمائے کرام کی مختلف آراء ہیں، چنانچہ کچھ علمائے کرام کفر کا حکم لگاتے ہیں، اور کچھ علمائے کرام اس کے قائل نہیں ہیں، اور کچھ علمائے کرام تفصیل سے کام لیتے ہیں کہ اگر بالکل ہی نمازیں نہیں پڑھتا تو وہ کافر ہے، اور جو شخص کبھی پڑھ لی اور کبھی نہ پڑھی تو ایسے لوگوں کے بارے میں کفر کا حکم نہیں لگاتے۔ چنانچہ الموسوعة الفقهية: 27/53-54 میں ہے کہ
    مالکی اور شافعی علمائے کرام کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص نماز کا انکار تو نہیں کرتا لیکن سستی اور کاہلی کی بنا پر نماز ترک کرتا ہے تو ایسے شخص کو حد لگاتے ہوئے قتل کردیا جائے گا، یعنی اس کے قتل کے بعد اس کا حکم مسلمان والا ہی ہوگا، اسے غسل دے کر نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اور مسلمانوں کے ساتھ دفن کیا جائے گا۔ حنبلی کہتے ہیں کہ : سستی اور کاہلی کی وجہ سے نماز ترک کرنے والے شخص کو نماز پڑھنے کی دعوت دی جائے گی، اور کہا جائے گا: نماز پڑھو، ورنہ ہم تجھے قتل کردیں گے تو اگر نماز پڑھ لے تو ٹھیک ورنہ اسے قتل کرنا واجب ہے، لیکن اسے قتل کرنےکےلیے تین دن قید میں رکھا جائے گا، اور ہر نماز کے وقت اسے نماز پڑھنے کی دعوت دی جائے گی، تو اگر نمازیں پڑھنا شروع کردے تو ٹھیک ورنہ حد لگاتے ہوئے اسے قتل کردیا جائے گا، جبکہ کچھ حنابلہ کا کہنا ہے کہ کفر کا حکم لگاتے ہوئے قتل کیا جائے گا، یعنی اسے غسل نہیں دیا جائے گا، اور نہ ہی نماز جنازہ ادا کی جائے گی، اور نہ ہی مسلمانوں کے قبرستان میں اسے دفن کیا جائے گا۔

    شیح ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
    میں یہ سمجھتا ہوں کہ کافر اسی وقت ہوگا جب بالکل ہی نمازیں ترک کردے، کہ بالکل نماز نہ پڑھے ، چنانچہ اگر کوئی کبھی نماز پڑھ لے اور کبھی نہ پڑھے ایسا شخص کافر قرار دنہیں دیا جاسکتا۔ (مجموع فتاوى ابن عثيمين :12/55)

    نوٹ:
    نماز چھوڑنا بہت بڑا گنا ہے، لیکن کیا نماز چھوڑنے والا کافر ہے یا نہیں؟ اس بارے تفصیل پیش کردی گئی ہے۔ معتدل مؤقف وہی ہے جو شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے پیش کیا ہے۔ واللہ اعلم

    باقی بے نماز کی نماز جنازہ کے حوالے سے جو بات ہے، وہ مولانا محدث نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ اپنی کتاب فتاویٰ نذیریہ جلد1، صفحہ650 میں فرماتے ہیں کہ

    ’’ حضرت ائمہ اربعہ علیہم الرحمۃ اور جملہ اہلسنت والجماعت قامع و قالع اہل بدعت کے نزدیک نماز جنازہ ضروری ہے ۔‘‘

    اور پھر فرماتے ہیں

    ’’ فرضیت نماز سے کبھی انکار ثابت نہیں تو یہ لو گ اہل اسلام اور داخل اہل اسلام ہیں اگرچہ فاسق اور اشد گناہ گار نماز نہ پڑھنے پر ہیں لیکن کافر ومرتد نہیں ہیں جو ان کے جنازہ کی نماز نہ پڑھی جاوے۔ شرعاً کافر کی نماز جنازہ اور اس کے لیے دعا استغفار کی ممانعت اہل اسلام کو ہے، فاسق کے واسطے نماز جنازہ اور دعاء استغفار کی ممانعت وارد نہیں ۔‘‘

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں