شعبان کی پندرھویں رات اور موت وحیات کا فیصلہ

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

پندرھویں شعبان کی رات بارے بہن نے سوال کیا ہے کہ سنا ہے اس رات جس نے دنیا میں آنا ہوتا ہے اور جس نے جانا ہوتا ہے اس کا حساب وکتاب لکھا جاتا ہے آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

259 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! مشکاۃ المصابیح، کتاب الصلاۃ، باب قیام شھر رمضان رقم: 1305 میں کچھ اس طرح حدیث ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اے عائشہ) کیا تم جانتی ہو یہ (یعنی نصف 15 شعبان کی رات) کون سی رات ہے؟ سیدہ عائشہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اس میں کیا ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اس رات میں بنی آدم کے اس سال پیدا ہونے والے بچوں کے بارہ میں لکھا جاتا ہے اس میں بنی آدم کے اس سال ہر فوت ہونے والے انسان کے متعلق لکھا جاتا ہے اس میں ان کے اعمال (اللہ تعالیٰ کی طرف) اٹھائے جاتے ہیں اور اس میں ان کا رزق نازل کیا جاتا ہے۔

    صاحب مشکاۃ نے مذکورہ حدیث کے لئے امام بیہقی کی کتاب الدعوات الکبیر کاحوالہ دیا ہے، اور اس میں یہ روایت موجود ہے۔ امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:

    حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِي أَبُو صَالِحٍ خَلَفُ بْنُ مُحَمَّدٍ بِبُخَارَى حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبَغْدَادِيُّ الْحَافِظُ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ حَدَّثَنِي حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْمَدَنِيُّ ، عَنِ نَصْرِ بْنِ كَثِيرٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، قَالَتْ : لَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ انْسَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مِرْطِي ، ثُمَّ قَالَتْ : وَاللَّهِ مَا كَانَ مِرْطُنَا مِنْ خَزٍّ ، وَلَا قَزٍّ ، وَلَا ، كُرْسُفٍ ، وَلَا كَتَّانٍ ، وَلَا صُوفٍ فَقُلْنا : سُبْحَانَ اللَّهِ فَمِنْ أَيِّ شَيْءٍ ؟ قَالَتْ : إِنْ كَانَ سَدَاهُ لَشَعْرٌ ، وَإِنْ كَانَتْ لُحْمَتُهُ لَمِنْ وَبَرِ الْإِبِلِ ، قَالَتْ : فَخَشِيتُ أَنْ يَكُونَ أَتَى بَعْضَ نِسَائِهِ ، فَقُمْتُ أَلْتَمِسُهُ فِي الْبَيْتِ فَتقَعُ قَدَمِي عَلَى قَدَمَيْهِ وَهُوَ سَاجِدٌ , فَحَفِظْتُ مِنْ قَوْلِهِ وَهُوَ يَقُولُ : سَجَدَ لَكَ سَوَادِي وَخَيَالِي ، وَآمَنَ لَكَ فُؤَادِي ، أَبُوءُ لَكَ بِالنِّعَمِ ، وَأَعْتَرِفُ بِالذُّنُوبِ الْعَظِيمَةِ ، ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ ، أَعُوذُ بِعَفْوِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ ، وَأَعُوذُ بِرَحْمَتِكَ مِنْ نِقْمَتِكَ ، وَأَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ قَالَتْ : فَمَا زَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي قَائِمًا وَقَاعِدًا حَتَّى أَصْبَحَ ، فَأَصْبَحَ وَقَدِ اضْمَغَدَتْ قَدَمَاهُ ، فَإِنِّي لَأَغْمِزُهَا ، وأقول : بِأَبِي أَنْت وَأُمِّي ، أَتْعَبْتَ نَفْسَكَ ، أَلَيْسَ قَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ ؟ أَلَيْسَ قَدْ فَعَلَ اللَّهُ بِكَ ؟ أَلَيْسَ أَلَيْسَ ؟ فَقَالَ : يَا عَائِشَةُ ، أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا ؟ هَلْ تَدْرِينَ مَا فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ ؟ قَالَتْ : مَا فِيهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ فَقَالَ : فِيهَا أَنْ يُكْتَبَ كُلُّ مَوْلُودٍ مِنْ مولود بَنِي آدَمَ فِي هَذِهِ السَّنَةِ ، وَفِيهَا أَنْ يُكْتَبَ كُلُّ هَالِكٍ مِنْ بَنِي آدَمَ فِي هَذِهِ السَّنَةِ ، وَفِيهَا تُرْفَعُ أَعْمَالُهُمْ ، وَفِيهَا تَنْزِلُ أَرْزَاقُهُمْ ، فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ : مَا من أَحَدٌ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا بِرَحْمَةِ اللَّهِ ؟ قَالَ : مَا مِنْ أَحَدٍ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا بِرَحْمَةِ اللَّهِ قُلْتُ : وَلَا أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى هَامَتِهِ فَقَالَ : وَلَا أَنَا إِلَّا أَنْ يَتَغَمَّدَنِيَ اللَّهُ مِنْهُ بِرَحْمَةٍ , يَقُولُهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ۔(الدعوات الكبير للبيهقي 2/ 146)

    لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔ کتاب کے محقق نے اس کی سند کو سخت ضعیف قراردیا ہے۔ کیونکہ اس میں ’خلف‘ اور ’نضر‘ دونوں ضعیف راوی ہیں۔درست بات یہ ہے کہ ہر انسا ن کی موت وحیا ت اور رزق وغیرہ کا فیصلہ لیلۃ القدر میں ہوتا ہے جو ماہ رمضان کے آخری عشرہ میں ہوتی ہے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں