خاوند کا حاملہ بیوی سے جماع کرنا

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن کی طرف سے سوال آیا ہے کہ وہ حالت حمل میں ہیں، اور ان کا خاوند اس سے جماع کرنا چاہتا ہے، تو بیوی کےلیے کیا حکم ہے؟ دوسرا اگر وہ خاوند کا حکم مان لیتی ہے تو کیا پیٹ میں موجود بچے کو نقصان تو نہیں؟

341 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! خاوند ہر وقت اور ہر حالت ميں بيوى سے لطف اندوز ہوسکتا ہے، چاہے وہ حالت حمل میں ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ حالت حمل میں لطف اندوزی کی ممانعت پرکوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ ہاں جس سے شریعت نے منع کیا ہے یعنی دبر میں وطئی کرنا یا اسی طرح حیض یا نفاس کی حالت میں وطئی کرنا تو یہ حرام ہے۔ اس کے علاوہ عورت جس بھی حالت میں ہو، خاوند مستفید ہوسکتا ہے۔ ہاں خاوند پربھی لازم ہے کہ وہ اس حوالے سے بیوی پرظلم وزیادتی نہ کرے، بلکہ اس کی رضا وخوشی کا بھی لازمی خیال رکھے۔

    جہاں تک یہ بات ہے کہ حالت حمل میں جماع کرنے سے پیٹ میں موجود بچے کو نقصان ہوتا ہے یا فائدہ؟ تو اس بارے احادیث کی روشنی میں جو بات ثابت ہے وہ یہ کہ حالت حمل میں کیا جانے والا جماع جنین (پیٹ میں موجود بچہ) کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ان حاملہ عورتوں کے بارہ میں جو لونڈیاں بن کر آتی تھیں اہل اسلام کو حکم دیا کہ ان سے جماع نہ کیا جائے جب تک وہ بچہ کو جنم نہ دے لیں۔کیونکہ جماع کرنے سے اس جنین کی نشو ونما میں دوران حمل جماع کرنے والے کا بھی حصہ شامل ہوجاتا ہے۔ پھر وہ بچہ نہ تو اس مسلمان کا وارث بن سکتا ہے کیونکہ اصل نطفہ اس مسلمان کا نہیں بلکہ کسی کافر کا ہے جس کے عقد میں وہ لونڈی پہلے رہی ہے۔ اور نہ ہی وہ بچہ غلام بن سکتا ہے کیونکہ اس مسلمان کا نطفہ بھی اس کی نشو ونما میں شامل ہو چکا ہے۔

    سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی لونڈی کو دیکھا جس کے بچہ کو جنم دینے کا وقت قریب تھا تو فرمایا:

    لَعَلَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُلِمَّ بِهَا ، فَقَالُوا: نَعَمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَلْعَنَهُ لَعْنًا يَدْخُلُ مَعَهُ قَبْرَهُ، كَيْفَ يُوَرِّثُهُ وَهُوَ لَا يَحِلُّ لَهُ؟ كَيْفَ يَسْتَخْدِمُهُ وَهُوَ لَا يَحِلُّ لَهُ؟۔( مسلم : 1441)
    شاید کہ اس کا مالک اس سے جماع کرنا چاہتا ہے؟ تو انہوں نے کہا جی ہاں، تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ اس پر ایسی لعنت کروں جو اس کے ساتھ اس کی قبر تک پہنچے، وہ اسے کیسے وارث بنائے گا جبکہ وہ اس کے لیے حلال نہیں ہے، اور اسے کیسے غلام بنائے گا جبکہ وہ اس کے لیے حلال نہیں ہے۔

    اسی طرح سیدنا رُوَیْفِع بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے حنین کے دن ارشاد فرمایا:

    لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْقِيَ مَاءَهُ زَرْعَ غَيْرِهِ يَعْنِي: إِتْيَانَ الْحَبَالَى وَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَقَعَ عَلَى امْرَأَةٍ مِنَ السَّبْيِ حَتَّى يَسْتَبْرِئَهَا۔ (ابوداؤد: 2158)
    جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنا پانی کسی دوسرے کی کھیتی کو پلائے یعنی دوسرے مرد سے حاملہ عورت کے ساتھ جماع کرے۔ اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ لونڈیوں میں سے کسی کے ساتھ جماع کرے حتى کہ استبراء کر لے (یعنی یا تو اسے حیض آ جائے یا اگر وہ حاملہ ہے تو بچہ کو جنم دے لے)۔

    ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران حمل جماع کرنے سے جنین کی جسمانی صحت میں بہتری آتی ہے۔ اور اس کی خلقت کے نقائص ختم ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح کھیتی کو پانی لگانے سے فصل سرسبز وشاداب ہوتی ہے۔ لہذا دوران حمل اپنی بیوی سے جماع کرنا معیوب نہیں
    بلکہ مستحسن امر ہے اور یہ جنین کے لیے مفید بھی ہے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں