نماز میں ہاتھ باندھنے کا مقام اور طریقہ

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ ہم نماز میں کتنی طریقوں سے ہاتھ باندھ سکتی ہیں؟ اور کہاں باندھیں۔ درست جواب کی طرف رہنمائی فرمائیں

567 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! مرد ہوں یا عورتیں وہ سینہ پر ہی ہاتھ باندھیں گی، جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے

    حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ اليَدَ اليُمْنَى عَلَى ذِرَاعِهِ اليُسْرَى فِي الصَّلاَةِ۔(بخاری:740)
    ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا امام مالک رحمہ اللہ علیہ سے، انہوں نے ابوحازم بن دینار سے، انہوں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے کہ لوگوں کو(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے) حکم دیا جاتا تھا کہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں کلائی پر رکھیں۔

    بخاری کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں سینے پر ہی ہاتھ باندھنے چاہئیں، کیونکہ آپ اگر اپنا دائیاں ہاتھ اپنی بائیں “ذراع” (بازو) پر رکھیں گیں تو دونوں ہاتھ خودبخود سینہ پر آجائیں گے ۔ ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دائیاں ہاتھ اپنی بائیں ہتھیلی کی پشت رُسغ (کلائی) اور ساعد (کلائی سے لےکر کہنی تک) پر رکھا۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے

    أَنَّ وَائِلَ بْنَ حُجْرٍ أَخْبَرَهُ قَالَ قُلْتُ لَأَنْظُرَنَّ إِلَى صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ يُصَلِّي فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ فَقَامَ فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى حَاذَتَا بِأُذُنَيْهِ ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى كَفِّهِ الْيُسْرَى وَالرُّسْغِ وَالسَّاعِدِ فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ مِثْلَهَا قَالَ وَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ ثُمَّ لَمَّا رَفَعَ رَأْسَهُ رَفَعَ يَدَيْهِ مِثْلَهَا ثُمَّ سَجَدَ
    فَجَعَلَ كَفَّيْهِ بِحِذَاءِ أُذُنَيْهِ ثُمَّ قَعَدَ وَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَوَضَعَ كَفَّهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ وَرُكْبَتِهِ الْيُسْرَى وَجَعَلَ حَدَّ مِرْفَقِهِ الْأَيْمَنِ عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى ثُمَّ قَبَضَ اثْنَتَيْنِ مِنْ أَصَابِعِهِ وَحَلَّقَ حَلْقَةً ثُمَّ رَفَعَ إِصْبَعَهُ فَرَأَيْتُهُ يُحَرِّكُهَا يَدْعُو بِهَا۔ (نسائی:890)
    حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دفعہ) میں نے (اپنے دل میں) کہا: میں ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو غور سے دیکھوں گا کہ آپ کیسے نماز پڑھتے ہیں؟ چنانچہ میں نے (توجہ سے) آپ کی طرف دیکھا۔ آپ کھڑے ہوئے اللہ اکبرکہا اور اپنے دونوں
    ہاتھ اٹھائے حتی کہ وہ آپ کے کانوں کے برابر ہوگئے۔ پھر آپ نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی، جوڑ اور کلائی پر رکھا۔ پھر جب آپ نے رکوع کرنے کا ارادہ فرمایا تو آپ نے اسی (پہلے رفع الیدین کی) طرح ہاتھ اٹھائے اور آپ نے اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھے۔ پھر جب آپ نے اپنا سر اٹھایا تو اسی طرح رفع الیدین کیا۔ پھر سجدہ کیا تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے کانوں کے برابر رکھا۔ پھر بیٹھے اور اپنا بایاں پاؤں بچھایا اور اپنی بائیں ہتھیلی اپنی بائیں ران اور گھٹنے پر رکھی اور اپنی دائیں کہنی کا کنارہ اپنی دائیں ران پر رکھا۔ پھر ہاتھ کی دو انگلیاں بند کیں اور (درمیانی انگلی اور انگوٹھے سے) حلقہ بنایا۔ پھر اپنی (تشہد کی) انگلی کو اٹھایا، چنانچہ میں نے دیکھا، آپ اسے حرکت دیتے تھے اس کے ساتھ دعا کرتے تھے۔

    مزیدسینے پر ہاتھ باندھنے کی تصدیق اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں آیا ہے کہ

    یضع ھٰذہ علیٰ صدرہ…. إلخ۔ (مسند احمد ج5 ص224 ح22313)
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ (ہاتھ) اپنے سینے پر رکھتے تھے …..إلخ

    باقی سنن ابی داود وغیرہ میں ناف پر ہاتھ باندھنے والی جو روایت آئی ہےکہ

    أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ مِنْ السُّنَّةِ وَضْعُ الْكَفِّ عَلَى الْكَفِّ فِي الصَّلَاةِ تَحْتَ السُّرَّةِ۔ (ابوداؤد:756)
    حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نماز میں ہتھیلی کو ہتھیلی پر ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے ۔

    یہ روایت عبدالرحمٰن بن اسحاق الکوفی کی وجہ سے ضعیف ہے، اس شخص پر جرح سنن ابوداؤد کے محولہ باب میں ہی موجود ہے، علامہ نووی رحمہ اللہ نے کہا:

    عبدالرحمٰن بن اسحاق بالاتفاق ضعیف ہے۔(نصب الرایۃ للزیلعی الحنفی۳۱۴/۱)

    علامہ نیموی فرماتے ہیں:

    وفیہ عبدالرحمٰن بن إسحاق الواسطي وھو ضعیف۔(حاشیہ آثار السنن ح ۳۳۰)
    اور اس میں عبدالرحمٰن بن اسحاق الواسطی ہے اور وہ ضعیف ہے ۔

    اور مزے کی بات یہ بھی کہ سنن ابی داؤد میں ہی اس کے برعکس ایک صحیح حدیث بھی ہے جس میں سینہ پر ہاتھ باندھنے کی صراحت بھی ہے جیسا کہ حدیث ملاحظہ فرمائیں

    حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ يَعْنِي ابْنَ حُمَيْدٍ عَنْ ثَوْرٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى عَنْ طَاوُسٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضَعُ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى ثُمَّ يَشُدُّ بَيْنَهُمَا عَلَى صَدْرِهِ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ۔ (ابوداؤد:759)
    جناب طاؤس ( طاؤس بن کیسان یمانی ، تابعی ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے دوران میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں کے اوپر رکھتے اور انہیں اپنے سینے پر باندھا کرتے تھے ۔

    باقی رہا یہ مسئلہ کہ مرد ناف کے نیچے اورعورت سینے پر ہاتھ باندھیں کسی صحیح حدیث یا ضعیف حدیث سے قطعاً ثابت نہیں ہے، یہ مرد اور عورت کی نماز میں جو فرق کیا جاتا ہے کہ مرد ناف کے نیچے ہاتھ باندھیں اورعورتیں سینے پر، اس کے علاوہ مرد سجدے کے دوران بازو زمین سے اٹھائے رکھیں اورعورتیں بالکل زمین کے ساتھ لگ کر بازو پھیلا کر سجدہ کریں، یہ سب باتیں صحیح دلائل سے ثابت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے نماز کی ہیئت تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک مرد وعورت کے لئے ایک ہی ہے ۔ صرف لباس اور پردے میں فرق ہے۔

    باقی جہاں تک بات ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنے کا طریقہ کیا ہے؟ تو اس کے دو طریقے ہیں۔

    1۔ اپنی دائیں ہتھیلی بائیں ہتھیلی، پَہُنچَا(ہتھیلی اور کلائی کا درمیانی جوڑ) اور کلائی پر رکھی جائے۔
    2۔ اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑ لیا جائے۔

    یہ دونوں طریقے صحیح احادیث سے ثابت ہیں۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں