قسطوں پراشیاء خریدنے کی شرعی حیثیت

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ کیا ہم قسطوں پرکوئی چیزخرید سکتے ہیں؟ شرعی حوالے سے رہنمائی فرمائیں۔

562 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! اس مسئلہ میں مابین علماء اختلاف ہے، کچھ علماء اسے درست تو کچھ علماء اسے ناجائز کہتے ہیں۔ بہرحال درست بات یہ ہے کہ جس سے آپ کوئی چیزقسطوں پر خریدنا چاہتی ہیں، اگراس بیع میں یہ تین شرائط ہیں، تو پھرآپ لے سکتی ہیں

    1۔ قیمت اور وقت پہلے سے طے کر لیا جائے، اور یہ بھی طے ہو جائے کہ یہ معاملہ ادھار اور قسطوں میں ہوگا۔ چاہے چیز کی قیمت قسطوں کی صورت میں نقد قیمت سے زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ قسطوں کی صورت میں بائع اور مشتری دونوں فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بائع زیادہ قیمت سے اور مشتری قیمت کی مہلت سے۔ لہٰذا قیمت اور وقت پہلے سے طے کرلینا ضروری ہے۔
    2۔ قسطوں کی تعداد اور ہر قسط کی مالیت طے کر لی جائے۔
    3۔ کسی قسط کے لیٹ ہونے پر جرمانہ وغیرہ کی شکل میں کوئی اضافی رقم چارج نہ کی جائے۔

    اگرکوئی قسطوں کا کاروبارکرنے والا ان تین شرائط پراپنی چیز قسطوں پردینے پہ راضی ہوتا ہے تو آپ لے سکتی ہیں۔ کیونکہ ان شرائط کے بعد دھوکہ یا غرر والی کوئی بات باقی نہیں رہتی۔ اگریہ تین شرائط پوری نہ ہوں، تو پھر احتراز کرنا ضروری ہے۔

    صحیح بخاری(حدیث2563) میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہےکہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے مالکوں نے اسے نو سال کی قسطوں پر چالیس درہم سالانہ کی قسط پر بیچا تھا۔

    اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ قسطوں کی بیع جائز ہے اور پھر بیع کی اس صورت میں دھوکہ، سود اور جہالت نہیں ہے۔ لہذا یہ بھی دیگر تمام شرعی بیوع کی طرح جائز ہے۔ لیکن اوپرجو تین شرائط بتائی گئی ہیں، ان کا ہونا ضروری ہے۔

    کچھ علماء ادھار کی صورت میں نقد قیمت سے اضافی قیمت کو سود کہتے ہیں، اور ان کا کہنا ہوتا ہے کہ

    1۔ پہلی بات کہ یہ اضافی قیمت وقت کے عوض مجبوری کی وجہ سے لی گئی ہے۔ اور کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا درست نہیں۔
    2۔ دوسرا وہ یہ کہتے ہیں کہ اس صورت میں ایک چیز کی دو قیمتیں ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا اس صورت میں بھی یہ ناجائز ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چیز کی دو قیمتیں مقرر کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (ابوداؤد:3461)

    پہلی بات کا جواب یہ ہے کہ ادھار کی صورت میں چیز کی قیمت میں اضافہ جائز ہے، ممانعت کی ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ اورپھرادھار کی صورت میں اضافے کا جواز خود قرآن کی آیت

    وَأَحَل اللہُ البیعَ ۔(سورۃ البقرۃ:275)
    اللہ تعالی نے بیع کو حال کیا ہے ۔

    سے ثابت ہے۔ کیونکہ یہ آیت ان لوگوں کے رد میں نازل ہوئی ہے جیسا کہ ابن جریر طبری، علامہ ابن العربی اور امام رازی رحمہم اللہ نے بیان کیا ہے۔ جن کا اعتراض یہ تھا کہ جب عقد بیع کے وقت ادھار کی زیادہ قیمت مقرر کی جاسکتی ہے تو پھر وقت پر ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں قیمت میں اضافہ کیوں نہیں کیا جاسکتا؟۔ جیسا کہ تفسیرطبری، احکام القرآن اورتفسیرالکبیروغیرہ میں اس کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔

    ان جلیل القدر آئمہ تفسیر کے بیان سے ثابت ہوا کہ اہل جاہلیت کی اصل غلطی یہ تھی کہ وہ وقت پر ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں اصل دَین (قرض) پر اضافہ کو ادھار کی صورت میں زیادہ قیمت لینے پر قیاس کرتے تھے۔ تو اللہ تعالی نے اس کا رد کرتے ہوئے فرمایا کہ ادھار کی صورت میں قیمت میں اضافہ کرنا بیع میں شامل ہے جوجائز ہے۔ جبکہ بروقت ادائیگی نہ کرنےکی صورت میں اضافہ سود ہے جو حرام ہے ۔

    اور جہاں تک اس صورت میں غریب آدمی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے والی بات ہے، تو اس حوالے سے عرض ہے کہ کتنے ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو چیز کی اصل قیمت بھی ادا نہیں کرسکتے ہوتے، چاہے وہ ادھار ہی کیوں نہ دی جائے تو کیاخیال ہے ہم پھران لوگوں کو اپنی اشیاء فری میں
    دینا شروع کردیں؟ اصل بات یہ ہے کہ جو آپ کے پاس خریدنے آیا ہے، یا قسطوں پر کوئی چیز خریدنا چاہتا ہے تو وہ اس طرح قیمت اداء کرنے کا اہل ہے، تبھی تو آپ کے پاس آیا ہے۔ اور اسے یہ بھی علم ہے کہ اس صورت میں قیمت میں اضافہ بھی ہوگا، جو مجھے دینا ہوگا۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ بائع اگرحسن اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئےاس طرح کے تنگ دست سے چیز کی اصل قیمت بھی نہ لے تو یہ اس کی اپنی مرضی پرمنحصر ہے۔ لیکن جہاں تک قسطوں پرکوئی چیز بیچنے یا خریدنے کے حوالے سے شرعی بات ہے تو یہ جائز ہے۔

    دوسری بات کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک چیز کی دو قیمتیں ہیں ہی نہیں بلکہ جس قیمت پربائع اور مشتری کا اتفاق ہوا ہے، یا جس قیمت پرچیز بیچی اور خریدی گئی ہے، وہ ایک ہی قیمت ہے۔ جس پردونوں کا اتفاق ہوا ہے۔ اگرہم اسے دو قیمتیں کہہ کر ناجائز کہہ دیتے ہیں تو پھراس طرح جب ہم بازار میں کوئی بھی چیز خریدنے جاتے ہیں، مثال کے طورپرموبائل خریدنے جائیں، تو دوکاندارقیمت ایک ہزار بتائے، مگرآپ نو سو کہیں اور نوسو پرہی سودا ہوجائے، تو کیا ہم یہ کہیں گے کہ یہاں دو قیمتیں ہیں، یہ بھی نا جائزہے؟۔ نہیں، ایسا کوئی بھی نہیں کہتا، کیونکہ یہاں جس قیمت پربائع
    اورمشتری کا اتفاق ہوا ہے وہ ایک ہی قیمت ہے۔ لہٰذا اسی طرح قسطوں میں بھی جس قیمت پربائع اورمشتری کا اتفاق اور سودا ہوتا ہے، وہ ایک ہی قیمت ہوتی ہے۔

    اسی طرح قسطوں کے کاروبار کے حوالے سے جمہور فقہاء ومحدثین رحمہم اللہ کی رائے ہے کہ یہ جائز ہے۔ چنانچہ امام شوکانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :

    و قالت الشافعیة والحنفية وزيد بن علي والمؤيد بالله والجمهور إنه يجوز۔ ( نيل الأوطار: 8/201)

    اہل حديث علماء میں سے سید نذیر حسین محدث دہلوی، نواب صدیق حسن خان اور حافظ عبد اللہ محدث روپڑی رحمہم اللہ جمیعاً بھی اس کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ( فتاویٰ نذیریہ: 2 / 162، الروضۃ الندیۃ:2 /89 ، فتاویٰ اہل حدیث:2 /663 ، 664)

    سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ ابن باز رحمہ اللہ بھی اس کے جواز کے حامی ہیں چنانچہ وہ فرماتے ہیں :

    قسطوں کی بیع میں کوئی حرج نہیں جب کہ مدت اور قسطیں معلوم ہوں خواہ قسطوں کی صورت میں قیمت نقد قیمت سے زیادہ ہو کیونکہ قسطوں کی صورت میں بائع اور مشتری دونوں فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بائع زیادہ قیمت سے اور مشتری مہلت سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ ( فتاویٰ اسلامیہ:2 /445)

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں