سحری کھاتے ہوئے آذان کا جاری ہونا اور شرعی حکم

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے گروپ میں ایک پوسٹ شیئرکی، جس میں تفصیل پیش کرکے اس مؤقف کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ اگر کوئی شخص سحری کررہا ہواور کھانے کا برتن اس کے ہاتھ میں ہو اوراسی حالت میں آذان فجر ہوجائے تو وہ آذان فجر کی وجہ سے کھانے سے نہ رک جائے بلکہ اپنی
حاجت پوری کرلے۔ بہن نے اس پرکہا کہ اس کی وضاحت فرما دیں کہ کیا آیا یہ بات واقعی درست ہے؟ کہ آذان ہونے سے پہلے پہلے ہم کھانا پینا بند کردیں یا پھر جب آذان شروع ہو تو جو بھی چیز کھا پی رہے ہوں فوراً رک جائیں یا پھر آذان ہوجائے اور ہم کچھ کھا پی رہے ہوں تو اسے کھا پی
لیں۔ درست بات کیا ہے؟ آپ وضاحت فرمادیں۔

436 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! مختصرجواب کے طورپرعرض ہے کہ بخاری میں صراحت ہے کہ

    عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ بِلاَلًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ۔(بخاری:622)
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال رضی اللہ عنہ رات رہے میں آذان دیتے ہیں عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کی آذان تک تم ( سحری) کھا پی سکتے ہو۔

    اسی طرح ایک اور بخاری کی حدیث ہے کہ

    عن عائشة رضي الله عنها: أن بلالا كان يؤذن بليل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (كلوا واشربوا حتى يؤذن ابن أم مكتوم، فإنه لا يؤذن حتى يطلع الفجر۔ (بخاری:1918)
    حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ بلال رضی اللہ عنہ کچھ رات رہے سے آذان دے دیا کرتے تھے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آذان نہ دیں تم کھاتے پیتے رہو کیوں کہ وہ صبح صادق کے طلوع سے پہلے آذان نہیں دیتے۔

    ان دونوں احادیث سے صراحت کے ساتھ پہلی بات یہ ثابت ہے کہ جب تک حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آذان نہ دینا شروع کریں، تب تک کھاتے پیتے رہا کرو۔ اور دوسری بات یہ ثابت ہے کہ حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ صبح صادق کے طلوع ہونے کے بعد آذان دیا کرتے
    تھے۔ اور تیسری یہ بات ثابت ہوئی کہ جب آذان ہو، تب سحری کھانا بند کرنی ہے ۔کیونکہ سحری کھانے سے رکنے کو آذان کے ساتھ خاص کیا گیا ہے۔ اب یہ کہنا کہ سحری کا وقت صبح صادق کے طلوع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجاتا ہے، کسی بھی طور درست نہیں۔

    اور جس محترم بھائی نے اس اجماعی مؤقف کے خلاف اپنا ایک الگ مؤقف بیان کیا ہے، انہوں نے بھی اپنی تحریر میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ

    ’’ تفاسیر اور احادیث کی کتابوں میں یہ بات تفصیل سےمذکور ہے کہ آنحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک آذان حضرت بلال رضی اللہ عنہ دیتے تھے جوتہجداورسحری کی اطلاع کےلیے ہوتی تھی،اوردوسری آذان حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ دیتے تھے جو فجر(صبح) صادق کےطلوع ہونےکے بعد دیتے تھے۔‘‘

    اب جب محترم بھائی نے خود تسلیم کرلیا کہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ صبح صادق کے طلوع ہونے کے بعد آذان دیا کرتے تھے۔ اور بخاری میں یہ بات ہے کہ

    ’’كلوا واشربوا حتى يؤذن ابن أم مكتوم‘‘۔(بخاری:1918)
    عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کی آذان تک تم ( سحری ) کھاتے پیتے رہو۔

    تو اب کیسے منع کرسکتے ہیں کہ صبح صادق کے طلوع ہونے سے پہلے پہلے سحری کا وقت ختم ہوجاتا ہے؟ کھانا پینا بند کردینا چاہیے؟جبکہ خود تسلیم کررہے ہیں کہ عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ صبح صادق کے طلوع ہونے کے بعد آذان دیا کرتے تھے، اور احادیث میں صراحت ہے کہ جب تک عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آذان دینا شروع نہ کریں، تب تک تم کھاتے پیتے رہو، کھانے پینے سے رکنا نہیں ہے۔ تو لہٰذا ثابت ہوا کہ بھائی نے اپنے ہی مؤقف کو اپنی ہی قلم سے غلط ثابت کردیا۔

    اب جہاں تک اس مسئلہ کا تعلق ہے کہ اگرانسان پانی پی رہا ہو، یا منہ میں لقمہ ڈالا ہوا ہو، یا پھر اسی طرح کوئی اور چیز کھا رہا ہوں، تو کیا آذان ہوتے ہی اس سے رک جانا چاہیے یا پھر اپنی حاجت پوری کرلینی چاہیے، تو حدیث میں ہے

    عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا سَمِعَ أَحَدُكُمُ النِّدَاءَ وَالْإِنَاءُ عَلَى يَدِهِ, فَلَا يَضَعْهُ، حَتَّى يَقْضِيَ حَاجَتَهُ مِنْهُ۔ (ابوداؤد:2350)
    سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے جب کوئی آذان (فجر) سنے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اسے رکھے نہیں بلکہ اپنی ضرورت پوری کر لے۔

    اس حدیث نے اس مسئلہ میں آکراُس حکم کا استثناء کردیا جو بخاری میں ہے کہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے آذان دینے پرکھانے پینے سے رک جاؤ۔ لہٰذا جب آذان فجر اپنے وقت پر شروع ہوجائے تو اجازت ہے کہ انسان پانی پی لے اور دو چار لقمے لے لے، مگر چائے کی طرح کے مشروب
    کی چسکیاں لینا درست نہیں ہو گا۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں