قرآن خوانی کی شرعی حیثیت

سوال

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

سوال:

بہن نے سوال پوچھا ہے کہ گھروں میں قرآن خوانی کرنا کیسا ہے نہ کرنے کی وجہ کیا ہے

478 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    شریعت سے ناواقفیت کی وجہ سے ان دنوں بے شمار ایسی چیزیں دن میں داخل کر لی گئی ہیں جن کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں تھا۔ان میں سے ایک مروجہ قرآن خوانی بھی ہے، اس کے ذریعے مردوں کو ثواب پہنچانے کا رواج عام ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ گھروں ، فیکٹریوں اور مارکیٹوں میں برکت کے لئے بھی مدارس کے طلباء کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ مردوں کے لئے قرآن خوانی تو ایک کاروبار کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ دوسرے مزدوروں کی طرح قرآن خواں بھی بآسانی کرایہ پر مل جاتےہیں ۔ حالانہ میت کے لئے قرآن خوانی نہ تو قرآن سے ثابت ہے اور نہ ہی رسول اللہﷺ سے اس کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔ حافظ ابن کثیر ؒ اس آیت کریمہ کہ ’’انسان کے لئے صرف وہی ہے جو اس نے کوشش کی ‘‘کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔ امام شافعی ؒ اور ان کے متبعین نے اس آیت کریمہ سے یہ مسئلہ استنباط فرمایا ہے کہ قراءت قرآن کا ثواب فوت شدگان کو ہدیہ نہیں کیا جاسکتا ْ۔اس لئے کہ وہ ان کی محنت و کوشش کا نتیجہ نہیں ہے اور اسی لئے رسو ل اللہﷺ نے اس عمل کو مستحب قرار نہیں دیا ہے اور نہ ہی آپ نے صحابہ کرامؓ کو کسی ظاہری حکم یا اشارے سے اس کی طرف راہنمائی کی ہے اور یہ طریقہ کسی صحابی سے بھی منقول نہیں ہے۔ اگر اس میں نیکی کو کوئی پہلو ہوتا تو وہ ضرور ہم سے پیش قدمی کرتے، نیک کاموں سے متعلق صرف کتاب و سنت پر اکتفا کی جاتا ہے کسی کے ذاتی فتوی، قیاس یا رائے سے کوئی حکم ثابت نہیں کیا جاسکتا ۔ البتہ دعا و صدقہ کا ثواب پہنچنے میں سب کا اتفاق ہے کیونکہ رسول اللہﷺ کی طرف سے اس سلسلہ میں واضح ارشادات موجود ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر،ص:۲۵۸،ج۴)
    اس طرح مکانات و دکانات میں خیروبرکت کےلئے خود قرآن پڑھا جاسکتا ہے لیکن اس سلسلہ میں مدارس کے طلباء کی خدمات حاصل کرنا، قرآن خوانی کے بعد دعوت طعام کا اہتمام کرنا قرون اولیٰ سے ثابت نہیں ہے۔ رسول اللہﷺ فرماتےہیں :
    ’’جس نے ہمارے دینی معاملے میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جو اس سے نہیں وہ مردود ہے۔‘‘ (صحیح بخاری ،کتاب الصلح:۲۶۹۷)
    لہٰذا ایسے کاموں سے اجتناب کرنا چاہیے۔
    (واللہ اعلم بالصواب)

ایک جواب چھوڑیں