آدھی دھوپ اور آدھا چھاؤں میں بیٹھنا سے ممانعت

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ آدھا چھاؤں اور آدھا دھوپ میں بیٹھنے کی جو بات ہے، وہ کس حد تک درست ہے؟ کیا ہمیں نہیں بیٹھنا چاہیے؟ اور اگر پاؤں ٹھنڈے ہوں، تو کیا صرف پاؤں دھوپ میں کرلیے جائیں؟

1030 مناظر 1

جواب ( 1 )

  1. جواب:
    بہن کا سوال اس روایت کی طرف اشارہ ہے، جس میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : تم میں سے جب کوئی شخص سایہ میں بیٹھا ہو پھر وہ سایہ جاتا رہے (یعنی اس پر دھوپ آجائے ) اور اس کے جسم کا کچھ حصہ دھوپ میں اور کچھ سائے میں ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ (وہاں سے) اٹھ کھڑا ہو (اور بالکل سایہ میں جا بیٹھے یا بالکل دھوپ میں )۔ (ابوداؤد)
    اور شرح السنہ میں یہ الفاظ ہیں کہ تم میں سے جو شخص سایہ میں بیٹھا ہو پھر وہ سایہ جاتا رہا تو وہاں سے اٹھ کھڑا ہو اس لئے کہ کچھ سایہ میں اور کچھ دھوپ میں بیٹھنا شیطان کا کام ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح)

    جب یہی سوال استاذ الاساتذہ محدث العصر شیخ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ سے ہوا تو آپ نے کچھ اس طرح جواب دیا

    مشکوٰۃ والی روایت سنن ابی داؤد (کتاب الادب ، باب ۱۵ ح ۴۸۲۱) مسند الحمیدی (بتحقیق: ۱۱۴۵) اور السنن الکبریٰ للبیہقی (۲۳۶،۲۳۷/۳) میں محمد بن المنکدر قال: حدثني من سمع أباھریرۃکی سند سے موجود ہے۔ اس میں حدثنی کا فاعل ’’من سمع‘‘ مجہول ہے ۔ لہذا یہ سند ضعیف ہے ۔
    منذری نے کہا: ”وتابعیہ مجھول” اور اس کا (راوی) تابعی مجہول ہے۔ (الترغیب و الترہیب ۵۹/۴)
    تنبیہ:
    اس مجہول تابعی کا ذکر مسند احمد (۳۸۳/۲ ح ۸۹۷۶) وغیرہ سے گر گیا ہے۔

    شرح السنۃ للبغوی (۳۰۱/۱۲ ح ۳۳۳۵) والی روایت موقوف اور منقطع ہے۔ اور اس میں محمد بن المنکدر اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے درمیان اس حدیث میں مجہول واسطہ گرگیا ہے ۔

    شرح السنہ والی روایت مصنف عبدالرزاق میں بھی موجود ہے ۔ (ج۱۱ ص ۲۳،۲۴ ح ۱۹۷۹۹)

    صاحب مصنف:
    عبدالرزاق الصنعانی رحمہ اللہ مدلس تھے لہٰذا جب تک ان کی بیان کردہ سند میں ان کے سماع کی تصریح نہ ہو، اس سے استدلال جائز نہیں ہے ۔ امام عبدالرزاق کی تدلیس کے لئے دیکھئے کتاب الضعفاء للعقیلی (ج۳ ص ۱۱۰،۱۱۱ و سندہ صحیح)

    عبدالرزاق نے ضعیف سند کے ساتھ محمد بن المنکدر سے نقل کیا ہے کہ وہ دھوپ اور چھاؤں میں بیٹھنا جائز سمجھتے تھے۔ (ح۱۹۸۰۱ عن اسماعیل بن ابراہیم بن ابان)

    امام عبدالرزاق نے ’’ عن معمر عن قتادۃ‘‘ کی سند سے نقل کیا ہے کہ قتادہ (تابعی) دھوپ اور چھاؤں میں بیٹھنا مکروہ سمجھتے تھے۔ (ح ۱۹۸۰۰) اس کی سند تدلیس عبدالرزاق کی وجہ سے ضعیف ہے ۔

    مجہول تابعی والی مرفوع روایت کے دو شاہدوں کی تحقیق درج ذیل ہے:

    نمبر1
    قتادۃ عن کثیر (بن أبي کثیر البصري) عن أبي عیاض (عمرو بن الأسود العنسي) عن رجل من أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم إلخ (مسند احمد ۴۱۳،۴۱۴/۳ ح ۱۵۴۲۱)
    اس میں قتادہ راوی مدلس ہے اور روایت عن سے ہے ۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے ابوبکر الشافعی کی ’’حدیثہ‘‘ (قلمی ۲/۴) سے نقل کیا ہے کہ اس شعبہ نے قتادہ سے بیان کیا ہے ۔ (السلسلۃ الصحیحہ: ۸۳۸)

    شیخ صاحب نے شعبہ تک سند بیان نہیں کی لہٰذا یہ حوالہ بھی مردود ہے۔ اس کے برعکس مسدد بن مسرہد نے یحییٰ (بن سعید القطان) عن شعبہ کی سند سے اس روایت کو مرسلاً بیان کیا ہے ۔ دیکھئے اتحاف المھرۃ (۱۶/۲ ص ۷۶۳ ح ۲۱۲۱۵)

    معلوم ہوا کہ متصل سند میں تدلیس کی وجہ سے گڑ بڑ ہے ۔ تدلیس والی یہی روایت مستدرک الحاکم (۲۷۱/۴ ح ۷۷۱۰) میں ’’عن أبي ھریرۃ‘‘ کی سند سے موجود ہے ، اسے حاکم اور ذہبی دونوں نے صحیح کہا ہے لیکن اس کی سند قتادہ کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے ۔ (قتادہ کی ایک مرسل رویات کے لئے دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ ۴۹۱/۸ ح ۲۵۹۴۹)

    نمبر2
    ’’ أبو المنیب عن ابن بریدۃ عن أبیہ أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم نھی أن یقعد بین الظل و الشمس‘‘۔(ابن ماجہ ۳۷۲۲، ابن ابی شیبہ فی المصنف ۴۹۱/۸ ح ۲۵۹۵۴، المستدرک ۲۷۲/۴ ح ۷۷۱۴)’
    بریدہ (بن الحصیب رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوپ اور چھاؤں میں بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔
    اس کی سند حسن ہے ۔ (تسہیل الحاجۃ، قلمی ص ۲۶۱) اسے بوصیری نے حسن قرار دیا ہے ۔

    اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ’’مجلس الشیطان‘‘ یا ’’مقعد الشیطان‘‘کے الفاظ کے بغیر یہ روایت حسن ہے لہذا سنن ابی داؤد والی روایت بھی اس سے حسن بن جاتی ہے ۔

    عکرمہ تابعی فرماتے ہیں کہ جو شخص دھوپ اور چھاؤں میں بیٹھتا ہے تو ایسا بیٹھنا شیطان کا بیٹھنا ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۴۸۹۱/۸ ح ۲۵۹۵۳ وسندہ صحیح) عبید بن عمیر (تابعی) نے فرمایا: دھوپ اور چھاؤں میں بیٹھنا شیطان کا بیٹھنا ہے ۔ (ابن ابی شیبہ : ۲۵۹۵۲ و سندہ صحیح)

    لہٰذا ایسے بیٹھنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں