عورت کا کفن کتنے کپڑے ہونا چاہیے

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ عورت کے کفن کے کتنے کپڑے ہوتے ہیں؟ یا کتنے کپڑے ہونےچاہیے؟

1097 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    عورت کے کفن کے متعلق اہل علم میں اختلاف ہے اس اختلاف کی بنیاد لیلیٰ بنت قائف الثقفیہ سے مروی حدیث کے صحیح اور ضعیف ہونے کا اختلاف ہے۔ حدیث کچھ اس طرح ہے

    حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ ابْنِ إِسْحَقَ حَدَّثَنِي نُوحُ بْنُ حَكِيمٍ الثَّقَفِيُّ وَكَانَ قَارِئًا لِلْقُرْآنِ عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي عُرْوَةَ بْنِ مَسْعُودٍ يُقَالُ لَهُ دَاوُدُ قَدْ وَلَّدَتْهُ أُمُّ حَبِيبَةَ بِنْتُ أَبِي سُفْيَانَ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ لَيْلَى بِنْتَ قَانِفٍ الثَّقَفِيَّةَ قَالَتْ كُنْتُ فِيمَنْ غَسَّلَ أُمَّ كُلْثُومٍ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ وَفَاتِهَا فَكَانَ أَوَّلُ مَا أَعْطَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحِقَاءَ ثُمَّ الدِّرْعَ ثُمَّ الْخِمَارَ ثُمَّ الْمِلْحَفَةَ ثُمَّ أُدْرِجَتْ بَعْدُ فِي الثَّوْبِ الْآخَرِ قَالَتْ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ عِنْدَ الْبَابِ مَعَهُ كَفَنُهَا يُنَاوِلُنَاهَا ثَوْبًا ثَوْبًا۔(ابوداؤد:3157)
    سیدہ لیلیٰ بنت قانف ثقفیہ بیان کرتی ہیں کہ میں ان عورتوں میں شامل تھی جنہوں نے سیدہ ام کلثوم دختر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی وفات کے وقت غسل دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ( ان کے کفن کے لیے) سب سے پہلے اپنا تہبند عنایت فرمایا، پھر قمیص، پھر اوڑھنی، پھر ایک چادر ان کو لپیٹنے کے لیے، پھر ان ( کپڑوں) کے بعد ان ( دختر محترمہ) کو ایک دوسرے کپڑے میں لپیٹا گیا۔ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کفن لیے دروازے کے پاس تشریف فرما تھے اور ہمیں ایک ایک کپڑا دیتے جاتے تھے۔

    اس حدیث کو شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے، کیونکہ اس کی سند میں نوح بن حکیم مجہول الحال راوی ہے۔ اور اسی طرح علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس پر ضعف کا حکم لگایا ہے۔ (احکام الجنائز، مسئلہ نمبر43 ص:85)

    امام زیلعی حنفی رحمہ اللہ نے بھی نوح بن حکیم کے علاوہ بھی اس کی سند کو ایک اور علت قادحہ کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے۔ (نصب الرایۃ جلد2، ص:258)

    راجح قول یہی ہے کہ یہ روایت تو ثابت نہیں ہے۔ اس لیے اس کو عورت کے کفن کے پانچ کپڑوں کی دلیل بنانا درست نہیں ہے۔ اسی لیے علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ

    والمرأۃ فی ذلک کالرجل اذ لا دلیل علی التفریق۔(احکام الجنائز، ص:85)
    عورت اس (کفن کے کپڑوں میں) مرد کی طرح ہے۔ کیونکہ مرد اور عورت کے کفن میں فرق کی صحیح اور مرفوع حدیث نہیں ہے۔

    جب کسی صحیح اور مرفوع حدیث میں عورت کے کفن کے پانچ کپڑوں کا ثبوت ہی نہیں ہے تو اس کے لیے بھی مردوں کی طرح تین چادروں کا کفن ہی مسنون ہو گا۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں