حالت تردد اور نمازقصر کرنے کا مسئلہ

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ اگر کوئی کسی جگہ جاتا ہے، لیکن وہاں اس کا قیام کتنے دن کا ہے؟ اس کا علم نہیں ہوتا۔ بلکہ جب کام ہوا، اسی وقت وہاں سے کوچ کرگیا۔ تو ایسی صورت میں نماز قصرپڑھی جائے گی ؟

339 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! ایک انسان کسی جگہ کسی کام وغیرہ کےلیے جاتا ہے، اور اسے علم نہیں ہوتا کہ وہ وہاں کتنے دن قیام کرے گا، اس کا قیام ایک دن کا بھی ہوسکتا ہے اور ایک ماہ یا ایک سال کا بھی۔ یعنی اسے کنفرم نہیں ہوتا کہ وہ کتنے دن یہاں ٹھہرے گا؟۔ تو جب ایسی صورت ہو تو پھر نماز قصر ہی
    ہوگی۔ کیونکہ یہ حالت تردد ہے، اور جب حالت تردد ہو تو پھر نماز قصر ہی ہوگی، چاہے دو سال تک ہی یہ تردد باقی رہے۔ لہٰذا جو شخص اپنے سفر ميں چار يوم سے زيادہ ايام كى اقامت اختيار كرے اور اس نے اقامت كى نيت نہ كى ہو، بلكہ اس كا عزم اور ارادہ ہو كہ جب اس كى حاجت اور ضرورت پورى ہو گئى وہ واپس پلٹ جائے گا تو يہ شخص ہمیشہ مسافر شمار ہو گا، اور اسے نماز قصر كرنے كا حق ہے، چاہے مدت كتنى بھى لمبى ہو جائے۔

    كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم فتح مكہ كے موقع پر انيس روز تک نماز قصر كرتے رہے، اور غزوہ تبوک كے موقع پر نصارىٰ سے جہاد كے ليے بيس روز تک رہے، اور صحابہ كرام رضوان اللہ علیہم اجمعین كو قصر نماز پڑھاتے رہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے رہنے اور اقامت كى نيت نہيں كى تھى، بلكہ سفر كى نيت پر تھے كہ جب اپنى ضرورت پورى كر ليں گے واپس پلٹ جائیں گے۔ (فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء:8/109)

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں