جب کسی بات کے صحیح یا غلط ہونے کا علم نہ ہو تو ہم کیا کریں؟

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ ہم احادیث اسی طرح قرآنی آیات ودیگراسلامی میسج فارورڈ کرتے رہتے ہیں۔ تو جنہوں نے قرآن وحدیث پڑھا ہوتا ہے وہ تو جان لیتے ہیں کہ یہ بات درست ہے یاغلط؟ لیکن جن لوگوں کو قرآن وحدیث کاعلم نہیں ہوتا تو ان کو کیسے پتہ چلے گا کہ یہ بات صحیح ہے یا نہیں؟اس بارے رہنمائی فرمائیں

433 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:
    بہن! فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے

    وَحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ۔ (مسلم:7)
    عبیداللہ بن معاذ بن عنبری اور عبد الرحمن بن مہدی دونوں نے کہا: ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے خبیب بن عبد الرحمن سے، انہوں نے حفص بن عاصم سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات بیان کر دے۔

    اسی طرح قرآن پاک میں بھی جگہ جگہ ہمارے لیے یہی تعلیم ہے کہ کہیں بغیرمصدقہ ریفرنس کے کوئی بات لکھی پائیں، یا سنیں تو اس پر اعتبار نہ کریں۔ کیونکہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ تحقیق کرنے کا حکم دیتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے

    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَتَبَيَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَىٰ إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا۔(سورۃ النساء:94)
    اے ایمان والو! جب اللہ کی راہ میں نکلو تو خوب تحقیق کر لیا کرو، اور جو شخص تم پر سلام کہے تو اسے (کافر سمجھ کر) یہ نہ کہو کہ تو مؤمن نہیں۔

    اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:

    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ۔(سورۃ الحجرات:6)
    اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق شخص خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ کرو کہ تم کسی تم جہالت میں کسی قوم پر حملہ کر بیٹھو پھر تم بعد میں اپنے کیے پر نادم ہو جاؤ۔

    ہمیں دین اسلام میں کوئی بات بغیر تحقیق (اور حوالے) کے خواہ وہ قرآن یا حدیث کا نام لے کر کہی گئی ہو، اسے ماننے اور اسے آگے پھیلانے سے منع کیا گیا ہے۔ بلکہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہمیں اگر کوئی خبر ملے تو ہم اسے علماء کے سامنے پیش کر کے اس کا حکم معلوم کریں۔​ جیسا کہ فرمان باری ہے:

    وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ ۖ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَىٰ أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ ۔(سورۃ النساء:83)
    یہ لوگ جہاں کوئی اطمینان بخش یا خوفناک خبر سن پاتے ہیں اُسے لے کر پھیلا دیتے ہیں، حالانکہ اگر یہ اُسے رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آ جائے جو ان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کرسکیں۔

    تو خلاصہ یہ ہے کہ ایسی کسی بات کو تسلیم نہیں کرنا چاہئے جب تک کوئی شخص اپنی بات کو قرآن کریم یا صحیح حدیث مبارکہ کے ریفرنس سے ثابت نہ کرے۔

    یہ بات تو سب کو علم ہے کہ ضعیف روایات بھی ہوتی ہیں اور موضوع بھی۔ اسی طرح دین مخالف این جی اوز بھی طرح طرح کی من گھڑت باتیں لکھ کر اپنی طرف سے حدیث نمبر لکھ دیتے ہیں تو میری رائے میں کسی بھی بات کو وحی یا شریعت سمجھ کر قبول نہیں کرنا چاہئے خواہ اس کے سامنے (قرآن) یا (حدیث) ہی کیوں نہ لکھا ہو، جب تک اصل سورس کا حوالہ نہ دیا جائے۔

    باقی جو لوگ لاعلم ہوتے ہیں، ان کےلیے اللہ تبارک وتعالیٰ کا حکم ہے کہ

    فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ۔(سورۃ الانبیاء:7)
    پس تم اہل ذکر سے پوچھ لو اگر خود تمہیں علم نہ ہو۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں