خواتین کا قبرستان جانا

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ کیا خواتین قبرستان جاسکتی ہیں؟ اس بارے احادیث صحیحہ سے وضاحت فرمائیں

421 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! خواتین کا قبرستان جانا جائز ہے۔ لیکن کثرت کے ساتھ نہ جائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع میں مرد وخواتین دونوں کو قبرستان جانے سے منع فرمادیا تھا۔ لیکن بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی رخصت دے کر فرمایا:

    نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا۔ (مسلم:2260)
    میں نے تمھیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھاتو(اب) تم ان کی زیارت کیا کرو۔

    اس حدیث کے حکم عام میں مرد اورخواتین دونوں شامل ہیں۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ

    حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِامْرَأَةٍ عِنْدَ قَبْرٍ وَهِيَ تَبْكِي فَقَالَ اتَّقِي اللَّهَ وَاصْبِرِي۔(بخاری:1252)
    ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ثابت نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گزرے جو ایک قبر پر بیٹھی ہوئی رورہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ خدا سے ڈر اور صبر کر۔

    اس حدیث سے بھی عورتوں کےلیے قبرستان جانے کا جواز ثابت ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی نکیر نہیں فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر یعنی کسی کام کو دیکھ کر خاموش رہ جانا اور منع نہ فرمانا بھی اس کام کے جواز پر دلالت کرتا ہے۔

    اسی طرح صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ

    لَمَّا كَانَتْ لَيْلَتِي الَّتِي كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا عِنْدِي انْقَلَبَ فَوَضَعَ رِدَاءَهُ وَخَلَعَ نَعْلَيْهِ فَوَضَعَهُمَا عِنْدَ رِجْلَيْهِ وَبَسَطَ طَرَفَ إِزَارِهِ عَلَى فِرَاشِهِ فَاضْطَجَعَ فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا رَيْثَمَا ظَنَّ أَنْ قَدْ رَقَدْتُ فَأَخَذَ رِدَاءَهُ رُوَيْدًا وَانْتَعَلَ رُوَيْدًا وَفَتَحَ الْبَابَ فَخَرَجَ ثُمَّ أَجَافَهُ رُوَيْدًا فَجَعَلْتُ دِرْعِي فِي رَأْسِي وَاخْتَمَرْتُ وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِي ثُمَّ انْطَلَقْتُ عَلَى إِثْرِهِ حَتَّى جَاءَ الْبَقِيعَ فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ انْحَرَفَ فَانْحَرَفْتُ فَأَسْرَعَ فَأَسْرَعْتُ فَهَرْوَلَ فَهَرْوَلْتُ فَأَحْضَرَ فَأَحْضَرْتُ فَسَبَقْتُهُ فَدَخَلْتُ فَلَيْسَ إِلَّا أَنْ اضْطَجَعْتُ فَدَخَلَ فَقَالَ مَا لَكِ يَا عَائِشُ حَشْيَا رَابِيَةً قَالَتْ قُلْتُ لَا شَيْءَ قَالَ لَتُخْبِرِينِي أَوْ لَيُخْبِرَنِّي اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ قَالَتْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي فَأَخْبَرْتُهُ قَالَ فَأَنْتِ السَّوَادُ الَّذِي رَأَيْتُ أَمَامِي قُلْتُ نَعَمْ فَلَهَدَنِي فِي صَدْرِي لَهْدَةً أَوْجَعَتْنِي ثُمَّ قَالَ أَظَنَنْتِ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ قَالَتْ مَهْمَا يَكْتُمِ النَّاسُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّ جِبْرِيلَ أَتَانِي حِينَ رَأَيْتِ فَنَادَانِي فَأَخْفَاهُ مِنْكِ فَأَجَبْتُهُ فَأَخْفَيْتُهُ مِنْكِ وَلَمْ يَكُنْ يَدْخُلُ عَلَيْكِ وَقَدْ وَضَعْتِ ثِيَابَكِ وَظَنَنْتُ أَنْ قَدْ رَقَدْتِ فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَكِ وَخَشِيتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِي فَقَالَ إِنَّ رَبَّكَ يَأْمُرُكَ أَنْ تَأْتِيَ أَهْلَ الْبَقِيعِ فَتَسْتَغْفِرَ لَهُمْ قَالَتْ قُلْتُ كَيْفَ أَقُولُ لَهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ قُولِي السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الدِّيَارِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ وَيَرْحَمُ اللَّهُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِينَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَلَاحِقُونَ۔ (مسلم:2256)
    حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: (ایک دفعہ) جب میری (باری کی) رات ہوئی جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تھے، آپ(مسجد سے) لوٹے، اپنی چادر(سرہانے) رکھی، اپنے دونوں جوتے اتار کر اپنے دونوں پاؤں کے پاس رکھے اور اپنے تہبند کا ایک حصہ بستر پر بچھایا، پھر لیٹ گئے۔ آپ نے صرف اتنی دیر انتظار کیا کہ آپ نے خیال کیا میں سو گئی ہوں، تو آپ نے آہستہ سے اپنی چادر اٹھائی، آہستہ سے اپنے جوتے پہنے اور آہستہ سے دروازہ کھولا، نکلے، پھر آہستہ سے اس کو بند کردیا۔ (یہ دیکھ کر) میں نے بھی اپنی قمیص سر سے گزاری (جلدی سے پہنی) اپنا دوپٹا اوڑھا اور اپنی آزار(کمر پر) باندھی، پھر آپ کے پیچھے چل پڑی حتیٰ کہ آپ بقیع(کے قبرستان میں ) پہنچے اور کھڑے ہوگئے اور آپ لمبی دیر تک کھڑے رہے، پھر آپ نے تین دفعہ ہاتھ اٹھائے، پھر آپ پلٹے اور میں بھی واپس لوٹی، آپ تیز ہوگئے تو میں بھی تیز ہوگئی، آپ تیز تر ہوگئے تو میں بھی تیز تر ہوگئی۔ آپ دوڑ کر چلے تو میں نے بھی دوڑنا شروع کردیا۔ میں آپ سے آگے نکل آئی اور گھر میں داخل ہوگئی۔جونہی میں لیٹی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی گھر میں داخل ہوگئے اور فرمایا: “عائشہ! تمھیں کیا ہوا کانپ رہی ہو؟ سانس چڑھی ہوئی ہے۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم مجھے بتاؤ گی یا پھر وہ مجھے بتائے گا جو لطیف وخبیر ہے(باریک بین ہے اور انتہائی باخبر) ہے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! اور میں نے(پوری بات) آپ کو بتادی۔ آپ نے فرمایا: تو وہ سیاہ (ہیولا) جو میں نے اپنے آگے دیکھا تھا، تم تھیں؟ میں نے کہا: ہاں۔ آپ نے میرے سینے کو زور سے دھکیلا جس سے مجھے تکلیف ہوئی۔پھر آپ نے فرمایا: کیا تم نے یہ خیال کیا کہ اللہ تم پر زیادتی کرے گا اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ؟ (حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے) کہا: لوگ (کسی بات کو) کتنا ہی چھپا لیں اللہ اس کوجانتا ہے، ہاں۔ آپ نے فرمایا: جب تو نے(مجھے جاتے ہوئے) دیکھاتھا اس وقت جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے تھے۔ انھوں نے(آکر) مجھے آواز دی اور اپنی آواز کو تم سے مخفی رکھا، میں نے ان کو جواب دیا تو میں نے بھی تم سے اس کو مخفی رکھا اور وہ تمہارے پاس اندر نہیں آسکتے تھے تم کپڑے اتار چکیں تھیں اور میں نے خیال کیا کہ تم سوچکی ہو تو میں نے تمھیں بیدار کرنا مناسب نہ سمجھا اور مجھے خدشہ محسوس ہواکہ تم (اکیلی) وحشت محسوس کروگی۔ تو انھوں (جبرائیل علیہ السلام) نے کہا: آپ کا رب آپ کو حکم دیتا ہے کہ آپ اہل بقیع کے پاس جائیں اور ان کے لئے بخشش کی دعا کریں۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ) کہا: میں نے پوچھا:اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں ان کے حق میں(دعا کے لئے) کیسے کہوں؟ آپ نے فرمایا: تم کہو، مومنوں اور مسلمانوں میں سے ان ٹھکانوں میں رہنے والوں پر سلامتی ہو، اللہ تعالیٰ ہم سے آگے جانے والوں اور بعد میں آنے والوں پر رحم کرے، اور ہم ان شاء اللہ ضرور تمہارے ساتھ ملنے والے ہیں۔

    اس حدیث سے بھی ثابت ہے کہ عورتیں قبرستان کی زیارت کےلیے جاسکتی ہیں، تبھی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوال پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دعا بتا دی، یہ نہیں فرمایا کہ خواتین کا قبرستان جانا جائز نہیں۔ اسی طرح دیگر دلائل وبراہین سے ثابت ہوتا ہے کہ خواتین کا قبرستان جانا جائز ہے۔

    باقی جو یہ حدیث ہے کہ

    عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَائِرَاتِ الْقُبُورِ ۔(ابوداؤد:3236)
    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو قبروں پر جاتی ہیں۔

    تو اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جو خواتین کثرت کے ساتھ قبرستان جاتی ہیں، ان پر لعنت فرمائی گئی ہے۔ لیکن جو کبھی کبھار شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے قبرستان چلی جائیں تو یہ جائز ہے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں