مجبوری کی وجہ سے بینک کا سود استعمال کرنا
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سوال:
بیوہ عورت جو چاربچوں کی ماں بھی ہے، اس کے پاس 10 لاکھ روپے تھے، جو اس نے بینک میں رکھوا دیے۔ اوراس نیت اور اس مجبوری سے بینک سے پرافٹ لے رہی ہے کیونکہ اس کا کمانے والا کوئی نہیں۔ اور نہ ہی اس کے پاس کوئی کاروبار کرنے والا ہے۔ جو اس کی رقم سے کاروبار کرکے رقم بھی بچائے اور اخراجات بھی پورے کرتا رہے۔ اوراگر وہ اپنی رقم سے اخراجات کرنا شروع ہوجاتی ہے تو کچھ عرصہ تک یہ رقم ختم ہوجائے گی، تو اس کے بعد اس کےلیے اخراجات چلانا مشکل ہوجائیں گے۔ تو کیا اس صورت اور اس مجبوری میں وہ بینک سے 10 لاکھ پر ملنے والا منتھلی پرافٹ لے سکتی ہے؟
جواب ( 1 )
جواب:
بہن یہ سراسر سود ہے، جو کہ حرام اور پھر رب تعالیٰ کے ساتھ جنگ بھی ہے۔ اور پھرایک مسلمان کے اللہ تعالیٰ پرتوکل کے بھی خلاف بات ہے۔ کیونکہ اس کا توکل تو اس پر ہے کہ بینک مجھے پیسے دے رہا ہے، اور میرے باقی پیسے محفوظ ہیں۔ لیکن کیا اس کا توکل اللہ پر نہیں جو تجارت کو بڑھانے کا وعدہ کرتے ہیں۔لہٰذا فوری طور آپ اپنے اس مسئلہ سے توبہ کریں، بینک سے رقم واپس لے کر خود تجارت کریں، یا پھر کسی اچھے اور ایماندار شخص سے تجارت کروائیں، جس کی مثال حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے لے لیں۔ ان شاءاللہ نیت کے مطابق اللہ تعالیٰ اس تجارت میں برکت ڈالے گا، پیسے میں برکت آئے گی۔ اور آپ کے ساتھ ساتھ اس کے بھی اخراجات پورے ہونا شروع ہوجائیں گے، جو اس رقم سے تجارت کرے گا۔
اور پھر یہ کوئی شرعی مجبوری بھی نہیں ہے، کیونکہ 10 لاکھ ایک اچھی خاصی رقم ہوتی ہے۔ جس سے بہت اچھا کاروبار شروع کرکے زبردست پرافٹ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب