محرم میں شادی اور کم علمی نظریات
سوال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سوال:
بہن نے سوال کیا ہے کہ کیا محرم الحرام میں شادی یا نکاح یا کوئی خوشی وغیرہ کے حوالے سے تقریب منعقد کی جاسکتی ہے يا نہیں؟ کیونکہ کچھ لوگ محرم میں خوشی وغیرہ کرنے سے منع کرتے ہیں۔ اس بارے آگاہی فرمائیں۔
جواب ( 1 )
جواب:
بہن! محرم الحرام میں شادی، نکاح، منگنی یا دیگرخوشی کی تقریبات منعقد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس حوالے سے متعدد دلائل ہیں۔ جن میں سے کچھ حسب ذیل ہیں۔
1۔ جس چیز کے بارے میں کوئی مخصوص حکم نہ ہو تو وہ کام اصل کے اعتبار سے مباح (جائز) ہوتا ہے، اور علمائے کرام کے مابین یہ متفق علیہ قاعدہ ہے کہ عادات میں جب تک حرمت کی دلیل نہیں ملتی تو اصل جواز ہی ہے۔ چنانچہ کتاب وسنت، اجماع یا قیاس، اور آثار وغیرہ میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی کہ جومحرم میں نکاح وخوشی وغیرہ سے مانع ہو، لہٰذا اباحت اصلیہ کی بنا پر ماہ محرم میں شادی، نکاح، منگنی یا دیگرخوشی کی تقریبات منعقدکی جاسکتی ہیں۔
2۔ اس بارے میں علمائے کرام کا کم از کم اجماع سکوتی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین عظام رحمہم اللہ، ائمہ کرام رحمہم اللہ اور ان کے علاوہ دیگر متقدمین یا متاخرین میں سے کوئی بھی ایسا عالم نہیں ملا جو اس ماہ میں شادی، بیاہ، منگنی اور خوشی کی تقریبات وغیرہ کو حرام یا کم از کم مکروہ ہی سمجھتا ہو۔ لہٰذا اگر کوئی منع کرتا ہے تو اس کی تردید کےلیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے اورعلمائے کرام میں سے کوئی بھی اس کے مؤقف کا قائل نہیں ہے۔
3۔ ماہ محرم اللہ تعالی کے عظمت والے مہینوں میں سے ایک ماہ ہے، اور اس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:
أَفْضَلُ الصِّيَامِ، بَعْدَ رَمَضَانَ، شَهْرُ اللهِ الْمُحَرَّمُ۔(مسلم:2755)
رمضان کے بعد افضل ترین روزے اللہ تعالیٰ کے مہینے محرم کے ہیں۔
تو یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف فرمائی ہے۔ اس ماہ میں نفل روزوں کا ثواب دیگر مہینوں سے زیادہ ہے، اس لئے اس ماہ کی برکت، اور فضیلت پانےکےلیے پوری کوشش کرنی چاہیے، چنانچہ اس ماہ میں غمگین رہنا، یا شادی کرنے سے ہچکچانا، یا جاہلی دور کی طرح بد فالی لینا سب غلط ہے۔
4۔ اگر کوئی اس مہینے میں شادی کی ممانعت کےلیے دلیل حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو بنائے، تو اسے کہا جائے کہ بلا شک وشبہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا دن تاریخ اسلامی میں بہت ہی تاریک دن ہے، لیکن اس عظیم سانحے کی وجہ سے شادی یا منگنی کو حرام کر دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہماری شریعت میں سالانہ برسی وغیرہ کے موقعوں پرغم تازہ کرنے اور سوگ منانےکی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی یہ کہ ان دنوں میں خوشی کا اظہار کرنا منع ہے۔ اگر اس بات پر وہ اتفاق نہ کرے تو ہمیں یہ پوچھنے کا حق بنتا ہے کہ کیا جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے وہ دن امت کےلیے سب سے غمگین دن نہیں ہے؟ تو پھر مکمل ماہ ربیع الاول میں شادی کرنا منع کیوں نہیں کرتے؟ (بلکہ الٹا خوشیاں منائی جاتی ہیں) یا اس ماہ میں شادی بیاہ کی حرمت یا کراہت صحابہ کرام رضوان اللہ عیہم اجمعین سے منقول کیوں نہیں ہے؟ یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آل واولاد اور ان کے بعد آنے والے علمائے کرام سے منقول کیوں نہیں ہے؟ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ اگر ہمارا یہی حال رہا کہ جس دن بھی کوئی اسلامی شخصیت یا اہل بیت کا کوئی فرد فوت ہویا اسے شہید کیا گیا ہو، ہم ہر سال اس غم کو تازہ کرنے لگ جائیں، تو ہمارے لئے خوشی اور مسرت کا کوئی دن باقی نہیں رہے گا، اور لوگوں کو ناقابل برداشت حد تک مشقت اٹھانی پڑے گی۔ لہٰذا دین میں نت نئے احکام ایجاد کرنا اسلام مخالف لوگوں کا کام ہے اور یہ لوگ اللہ تعالی کی طرف سے مکمل کر دیے جانے والے دین میں بھی کمی کوتاہی نکالنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔
5۔ کچھ مؤرخین نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی صحیح ترین تاریخ جو بتلائی ہے وہ ہجرت کے تیسرے سال کی ابتدا ہے۔ جیسے کہ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: بیہقی نے ابو عبد اللہ بن مندہ کی کتاب “المعرفہ” میں ذکر کیا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی ہجرت سے ایک سال بعد کی، اور رخصتی مزید ایک سال بعد ہوئی، چنانچہ اس طرح سے رخصتی کا سال ہجرت کے تیسرے سال کی ابتدا بنتا ہے۔( البداية والنهاية،3/419)
اس بارے میں دیگر اقوال بھی ہیں، لیکن اسے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ محرم میں شادی کو کسی بھی عالم دین نے برا نہیں جانا بلکہ جو اس ماہ میں شادی کرے گا اس کےلیے امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آپ کی زوجہ محترمہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عملی نمونہ اور قدوہ حسنہ بھی موجود ہے۔
واللہ اعلم بالصواب