نماز وتر کی قضا کا مسئلہ

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ اگر نماز وتر کسی بھی وجہ سے تہجدٹائم نہ پڑھی جاسکے اور نماز فجر کی آذان ہوجائے تو پھراس کی قضا کس ٹائم دی جائے؟۔

1812 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

    جواب:

    سب سے پہلے تو یہ جان لینا چاہیے کہ وتر کی نماز کا وقت نکل جائے تو اس کی قضاء ضروری ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
    ’’من نام عن الوترا ونسیہ فلیصل اذا ذکرو اذا استیقظ‘‘ (ترمذی، ابو داؤد وغیرہ)
    جو بھی نماز وتر پڑھنے سے سوتا رہ گیا، یا اسے وتر پڑھنا ہی بھول گیا تو جب بیدا ر ہو، یا جب اسے یاد آئے تو نماز وتر پڑھ لے۔

    اور یہ قضائی طلوع آفتاب کے پندرہ منٹ بعد دی جائے گی۔

    اب اس میں ایک اور مسئلہ ہے کہ اگر کسی کا تہجد کے وقت اٹھنے کا معمول ہو اور اسے قوی امید ہو کہ وہ اٹھ جائے گی تو اسے رات کو وتر پڑھے بغیر سونا چاہئے اور صبح اٹھ کر نماز تہجد پڑھ کر وتر پڑھنے چاہئیں اور اگر ایسا معمول نہ ہو تو پھر اسے رات کو وتر پڑھ کر سونا چاہئے۔ اب اگر معمول کے مطابق وتر چھوڑے تھے،کہ صبح تہجد کی نماز کے بعد پڑھونگی، لیکن خلاف معمول صبح بیدار نہ ہو سکی تو پھر طلوع آفتاب کے تقریبا پندرہ منٹ بعد معمول کے مطابق تہجد کے وقت پڑھی جانے والی نماز پڑھے اور پھر وتر پڑھ لے۔اور صرف نماز وتر ہی پڑھ لے تو بھی ٹھیک ہے۔ لیکن ایسی بہن جو تہجد تو نہیں پڑھتی، لیکن روٹین یہ ہے کہ وہ وتر فجر سے پہلے اٹھ کر پڑھتی ہے۔ تو اس کےلیے یہی حکم ہے کہ وہ طلوع آفتاب کے پندرہ منٹ بعد صرف وتر پڑھ لے۔بعض علماء یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بھی اگر تہجد پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتی ہے۔

    ٭کچھ علماء جن میں شیخ محمد صالح العثیمین رحمہ اللہ بھی ہیں جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کہ جس میں ہے کہ ’’ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی غلبۂ نیند یا کسی تکلیف کی بنا پر قیام اللیل نہ کر پاتے تو دن میں 12 رکعتیں ادا فرماتے‘‘۔ سے یہ استدلال کیا ہے کہ وہ ترطاق نہیں بلکہ جفت پڑھے گی۔ یعنی اگر وہ ایک پڑھتی ہے تو دوپڑھے، اگر وہ تین پڑھتی ہے تو چار۔الخ۔۔لیکن یہ رائے حسن ہے۔ اولیٰ واقویٰ رائے وہ ہے جو اوپر بیان کردی گئی ہے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں