نمازوں اور روزوں کی قضا کا مسئلہ

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ ان کے خاوند پہلے پانچ وقت کی نماز بھی مکمل نہیں پڑھتے تھے اور اسی طرح رمضان المبارک کے مکمل روزے بھی نہیں رکھتے تھے، کبھی رکھ لیے تو کبھی چھوڑ دیئے۔ لیکن جب سے حج کیا ہے تب سے نماز اور پھر رمضان المبارک کے مکمل روزے رکھتے آرہے ہیں۔ اس وقت خاوند کی عمر47 سال ہے۔ اور وہ رہ جانے والی نمازوں اور پھر چھوٹ جانے والے روزے دونوں کی ادائیگی نہیں کر پائیں گے۔ سو اب وہ دونوں کا فدیہ دینا چاہتے ہیں۔ تو نماز کی قضا اور روزوں کا فدیہ یا قضا کیسے دیں؟ اور کس صورت میں دیں۔ راہنمائی فرمائیں.

567 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! سب سے پہلے تو اللہ کا شکر ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کے خاوند کو اسلام کے بارے میں بصیرت اور رہنمائی عطا فرمائی نیز دین کا پابند بنایا، ہم اللہ تعالی سے اپنے لیے اور آپ کےخاوند کےلیے مرتے دم تک دین پر ثابت قدمی اور صراط مستقیم پر گامزن رہنے کا سوال کرتے ہیں۔

    جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تو اس میں ایک شق روزوں سے متعلق اور دوسری نمازوں سے متعلق ہے۔ دونوں کے جواب پیش ہیں۔

    نمازوں کی قضا:
    آپ کے خاوند کی عمر اب47 سال ہے اور نماز فرض ہونے کی عمر سے لےکر حج کرنے تک باقاعدہ نماز نہیں پڑھتے تھے تو بہن اس حوالے سے بعض لوگ قضائے عمری کا تصورلاتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص کی بہت سی نمازیں قضا ہو چکی ہوں جن کے بارے میں اسے علم نہ ہو کہ کس وقت کی نمازیں زیادہ قضا ہوئیں اور کس وقت کی کم تو اسے چاہیے کہ اپنی تمام نمازوں کا ایک اندازہ لگائے اور پھر اوقات ممنوعہ کے علاوہ بقیہ اوقات میں ان نمازوں کی ادائیگی شروع کردے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نوافل و سنن کی بجائے صرف فرض رکعتیں ادا کرے۔ اور ہر نماز کے ساتھ ایک، ایک، دو، دو یا تین تین نمازیں پڑھنا شروع کردے۔ تو اسی کو قضائے عمری کہتے ہیں۔ لیکن قضائےعمری کی شریعت میں کوئی حقیقت نہیں ہے، بلکہ یہ بدترین بدعت ہے۔ اگر کسی کی زیادہ نمازیں رہتی ہیں تو اس پر اللہ سے توبہ کرنا فرض اور واجب ہو جاتا ہے۔ جان بوجھ کر نماز چھوڑنا بہت بڑا گناہ اور جرم عظیم ہے ۔ ایسے شخص پر توبہ کرنا لازم ہے کہ وہ اپنی چھوٹی ہوئی نمازوں کی اللہ سے اخلاص کے ساتھ پکی اور سچی توبہ کرے۔ اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم کرے۔ اگر مخلصانہ سچی توبہ کرکے آئندہ نمازیں پڑھنا شروع کر دی جائیں تو اللہ سے امید ہے کہ وہ سابقہ گناہ کو معاف فرما دے گا۔ جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے

    وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُو عَنِ السَّيِّئَاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ۔(الشورى:25)
    وہی تو ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا اور برائیوں کو معاف کرتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو وہ انہیں جانتا ہے۔

    روزوں کی قضا:
    سب سے پہلے تو یہ جان لیجیے کہ علماء كرام کا اس بات پر اتفاق ہے كہ جس نےبھی رمضان المبارک كےروزے نہ ركھے اس پرآئندہ رمضان آنے سے قبل روزوں كی قضاء كرنی واجب ہے ۔ جہاں تک آپ کاسوال ہے تو اس میں تین صورتیں ہیں۔

    پہلی صورت:
    اگر تو یہ روزے سفر یا بیماری کی وجہ سے چھوڑے تھے۔ اور اب قضائی دینے کی طاقت بھی ہے تو پھر روزوں کی قضائی دینا ہوگی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

    فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ۔(سورۃ البقرۃ:184)
    پس تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وه اور دنوں میں گنتی کو پورا کر لے۔

    دوسری صورت:
    لیکن اگر یہ روزے بغیر کسی عذر شرعی کے چھوڑے، اور اب روزے رکھنے کی طاقت بھی ہے تو بغیرکسی عذر کے قضاء میں تاخیر کرنا گناہ ہے، جس پر توبہ واستغفار لازمی ہے۔ اور علماء کرام کا متفقہ فیصلہ ہے کہ اس پر روزوں کی قضاء لازم ہے۔ جہاں تک ایسی صورت میں قضاء کے ساتھ فدیہ (ایک مسکین کو کھانا کھلانا) والی بات ہے تو اس میں علماء کے مابین اختلاف ہے۔ راجح مؤقف یہی ہے کہ صرف قضاء ہی ہے۔ فدیہ نہیں دیا جائے گا۔ کیونکہ واجب صرف قضاء ہی ہے۔ لیکن اگر کوئی انسان احتياط كرنا چاہے تو روزے رکھے اور ہر روزے كےبدلے ايک مسكين كو كھانا بھی كھلائے توبہتر اوراحسن اقدام ہوگا۔

    تیسری صورت:
    جان بوجھ کر روزے چھوڑے، مگر اب قضا کی بھی طاقت نہیں تو حدیث کی رو سے ہر روزے کے بدلے ایک گردن آزاد کرنی ہے، طاقت نہیں تو ساٹھ مسلسل روزے رکھنے ہیں، اگر روزے رکھنے کی بھی طاقت نہیں ، تو ہر روزے کے بدلے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔ جیسا کہ حدیث ہے۔

    عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وسلم إِذْ جَائَهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَكْتُ قَالَ مَا لَكَ قَالَ وَقَعْتُ عَلَى امْرَأَتِي وَأَنَا صَائِمٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلي الله عليه وسلم هَلْ تَجِدُ رَقَبَةً تُعْتِقُهَا قَالَ لاَ قَالَ فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تَصُومَ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ قَالَ لاَ فَقَالَ فَهَلْ تَجِدُ إِطْعَامَ سِتِّينَ مِسْكِينًا قَالَ لاَ قَالَ فَمَكَثَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وسلم فَبَيْنَا نَحْنُ عَلَى ذَلِكَ أُتِيَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وسلم بِعَرَقٍ فِيهَا تَمْرٌ وَالْعَرَقُ الْمِكْتَلُ قَالَ أَيْنَ السَّائِلُ ؟ فَقَالَ أَنَا قَالَ خُذْهَا فَتَصَدَّقْ بِهِ فَقَالَ الرَّجُلُ أَ عَلَى أَفْقَرَ مِنِّي يَارَسُولَ اللَّهِ فَوَاللَّهِ مَا بَيْنَ لاَبَتَيْهَا يُرِيدُ الْحَرَّتَيْنِ أَهْلُ بَيْتٍ أَفْقَرُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي فَضَحِكَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وسلم حَتَّى بَدَتْ أَنْيَابُهُ ثُمَّ قَالَ أَطْعِمْهُ أَهْلَكَ ۔(بخاری:1936)
    سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) اس حال میں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کی کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! میں تو برباد ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا ہوا؟ اس نے عرض کی کہ میں نے روزہ کی حالت میں اپنی بیوی سے ہم بستری کر لی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو ایک غلام آزاد کر سکتا ہے؟ تو اس نے عرض کی کہ نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو پے در پے دو مہینے کے روزے رکھ سکتا ہے ؟ تو اس نے عرض کی کہ نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہے؟ تو اس نے عرض کی کہ نہیں۔ (سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ) کہتے ہیں کہ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے توقف کیا۔ ہم اسی حال میں تھے کہ کوئی شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوروں سے بھرا ہوا خرمے کی چھال کا ایک ٹوکرا لایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سائل کہاں ہے؟ تو اس نے عرض کی کہ میں حاضر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ٹوکرے کو لے لے اور خیرات کر دے۔ اس نے عرض کی کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! کیا اپنے سے زیادہ محتاج کو خیرات دوں تو اللہ کی قسم! مدینہ کے دونوں پتھریلے میدانوں کے درمیان کوئی گھر میرے گھر سے زیادہ محتاج نہیں ہے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنا ہنسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دانت مبارک نظر آنے لگے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا ! پھر اپنے ہی گھر والوں کو کھلا دے ۔

    لہٰذا اگر توآپ کے خاوند نے سفر یا بیماری میں روزے چھوڑے، اور شرعی عذر ک یوجہ سے قضائی بھی نہیں دی مگر اب قضائی کی طاقت نہیں تو ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے گا، لیکن اگر بغیر کسی عذرشرعی کے روزے چھوڑے، قضائی بھی نہیں دی اور اب روزے رکھنے کی طاقت بھی نہیں تو پھرچھوڑے گئے روزوں کا حساب لگا کر ہر روزے کے بدلے میں ایک غلام آزاد کیا جائے گا، یا پھر ہر روزے کے بدلے میں دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے جائیں گے، اوراگر اس کی بھی طاقت نہیں تو چھوٹے گئے روزوں کا حساب لگا کر ہر روزے کے بدلے میں ساٹھ مساکین کو کھانا کھلایا جائے گا۔ اور کھانے کے بجائے اگر نقدی وغیرہ بھی دے دی جائے تو روزوں کا فدیہ اداء ہوجائے گا۔

    نوٹ:
    جہاں تک انسان پر روزے فرض ہونے کی بات ہے تو بچپن سے ہی بچوں کو نماز اور روزوں کی ترغیب دینا ضروری ہے۔ نماز کی فرضیت 10 سال سے شروع ہوجاتی ہے لیکن روزے کی فرضیت بارے صحیح مؤقف یہ ہے کہ بلوغت شرط ہے۔ اور بلوغت عموماً 13 سے شروع ہوجاتی ہے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں